کراچی (ہمگام نیوز ) واضح رہے کہ لباچ ڈنسر کا علاقہ آواران ہیڈکوارٹر سے 16 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ علاقائی ذرائع نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈنسر کے رہائشی لڑکی ماہ زیب حضور بخش نے رواں سال فروری کی چار تاریخ کو ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ کر ضلع کیچ کے علاقے ڈنڈار میں ایک علاقائی معتبر کے یہاں بلوچی رسم کے تحت باہوٹ یعنی پناہ لی تھی۔
مذکورہ معتبر نے انہیں بلوچی رسم کے تحت باہوٹ دی اور وہاں انکی شادی کی رسم ادا کی گئی۔ ذرائع کے مطابق شادی کے پندرہ روز بعد مقتول ماہ زیب کے چچا خالد علاقائی معتبر سے لڑکے اور لڑکی کو نقصان نہ دینے کی یقین دہانی پر اپنے ہمراہ لے گئے۔
مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ لڑکے اور لڑکی کو گھر منتقل کرنے کے بعد 11 مارچ کو آٹھ بجے کے قریب لڑکی کو اس کے چاچا رفیق نے مبینہ طور پر قتل کردیا جبکہ اس سے قبل لڑکے کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا۔ لڑکے نے زبردستی طلاق کے متعلق قاضی کورٹ میں کیس دائر کی تھی، کیس کی پیشی ہفتے کے روز تھی جبکہ جمعہ کی رات لڑکی کو قتل کردی گئی تھی
بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کی جانب سے نصیر آباد، آواران اور بلوچستان بھر میں غیرت کے نام پر جاری قتل و غارت گری کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے کہا گیا کہ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے پسند اور ناپسند کو جواز بناکر کسی عورت کو نقصان پہنچائے مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں غیرت کے نام پر عرصہ دراز سے قتل و غارت گری کاسلسلہ جاری ہے اور حکومت و انتظامیہ تماشائی بنے بیٹھے ہیں جبکہ اس جرم کے خلاف انتظامیہ اور حکومت کا رویہ مجرمانہ ہے۔ ماہ زیب نامی لڑکی نے جس لڑکے کے ساتھ نکاح کیا وہ کوئی غیر نہیں اور نہ ہی کوئی باہر کا لڑکا تھا بلکہ لڑکی کا کزن (چاچو کا بیٹا) تھا لڑکی کے باپ نے شادی سے انکار کیا جس کے بناء پر مجبوراََ ان دونوں کو یہ قدم اٹھانی پڑی تھی اور یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ یہ دونوں لڑکا لڑکی بالغ تھے یعنی ان کو اپنے ہر اچھے برے کا حق قانونی طور حاصل تھا۔ کیا یہ ریاست اس بات کی اجازت دے چکی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے کسی رشتہ دار کو پسند و ناپسند کو جواز بناکر یا خاندان کے رضا و منشاء کے بغیر اپنی مرضی سے لیے جانے والے فیصلے پر قتل کریں اگر نہیں تو بلوچستان میں عرصہ دراز سے جاری قتل و غارت کو روکنے کیلئے انتظامیہ کیوں حرکت میں نہیں آتی۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے علاقے نصیر آباد سمیت آواران میں بھی حالیہ دنوں ماہزیب نامی معصوم لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے بھی نصیر آباد آواران اور دیگر بہت سے علاقوں میں ایسے قتل رونماں ہو چکے ہیں مگر انتظامیہ ان تمام واقعات پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ آواران میں معصوم لڑکی کے قتل میں ملوث شخص کو گرفتار تو کر لیا گیا ہے مگر ان کی سزا بھی یقینی بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کی غیرقانونی اور غیر انسانی عمل کا ارتکاب نہ کرے۔ اس طرح کے واقعات کا رونماں ہونا ریاست کیلئے سوالیہ نشان ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں غیرت کے نام پر کئی معصوم لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے مگر اس کو روکنے میں اب تک انتظامیہ مکمل طور پر ناکام رہی ہے اگر حالات یہ رہے تو عوام کا قانون پر سے بھروسہ مکمل طور پر اٹھ جائے گا۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے انتظامیہ کو سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے گھناؤنی حرکت کسی بھی طرح بلوچ رسم و رواج کلچر اور اقتدار کی ترجمانی نہیں کرتے بلوچ روایات و کوٹ آف کنڈیکٹ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ایک معصوم لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کرنے پر قتل کریں۔ اس سلسلے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے اور انتظامیہ کو بھی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔