نیو یارک (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق تقریباً سات ماہ بعد پہلی بار لڑکیوں کے ہائی اسکول کھلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی طالبان انتظامیہ نے انہیں دوبارہ بند کر دیا۔ اقوام متحدہ نے طالبان کے اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ایک ‘بڑا دھچکا’ قرار دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق افغانستان کی وزارت تعلیم نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ہائی اسکول جانے کی عمر کی لڑکیوں کی تعلیم پر کئی ماہ کی پابندیوں کے بعد، ملک کے نئے تعلیمی سال کے پہلے دن، 23 مارچ، سے لڑکیوں سمیت تمام طلبہ کے لیے اسکول پورے ملک میں کھل جائیں گے۔
23 مارچ کو ہائی اسکولی سطح کے لڑکیوں کے اسکول کھلے بھی تاہم چند گھنٹے بعد ہی طالبان نے انہیں دوبارہ بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات اسکول نہیں جا سکیں گی۔
بدھ کے روز جب اسکول کھلے تو خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک ٹیم دارالحکومت کابل کے ایک ہائی اسکول میں اس منظر کی فلم بندی کر رہی تھی۔ تاہم اسی دوران ایک استاد باہر آئے اور کہا کہ کلاس ختم کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کی ایک نیوز ایجنسی باختر کے مطابق، بدھ کے روز وزارت تعلیم کی جانب سے جاری ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول اس وقت تک بند رہیں گے جب تک کہ اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق کوئی منصوبہ پوری طرح سے تیار نہیں کر لیا جاتا۔
اس نوٹس میں کہا گیا ہے، ”ہم تمام گرلز ہائی اسکولوں اور ان اسکولوں کو مطلع کرتے ہیں کہ جن میں چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات موجود ہیں، وہ تا حکم ثانی بند رہیں گے۔”
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے طالبان کے ایک ترجمان انعام اللہ سمنگانی سے جب اس خبر کی تصدیق کے لیے رابطہ کیا کہ کیا واقعی لڑکیوں کو گھر واپس بھیج دیا گیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا، ”ہاں، یہ سچ ہے۔” تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید کوئی وضاحت کرنے سے منع کردیا.
دوسری جانب افغان وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان کا کہنا تھا، ”ہمیں اس بارے میں کسی بھی طرح کا تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔”