لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی آئین و قانون پاکستان کی فوج ہے جو کہ پاکستان اور مقبوضہ بلوچستان کے تمام فیصلے کرتی ہے۔ پاکستانی فوج خود پاکستان کے وزیر اعظم کا انتخاب کرتی ہے اور خود ہی انہیں معزول کرواتی ہے۔ پاکستان نہ ایک جمہوری ملک ہے نہ اس میں حقیقی پارلیمانی نظام موجود ہے بلکہ پارلیمان ، حکومت، اپوزیشن ، عدلیہ اور میڈیا کو پاکستانی فوج درپردہ کنٹرول کرتی ہے۔
پاکستان کی اندرونی کشمکش اور چند مفادات کے لیے اس جنگ میں آج بلوچ قوم پرست سیاست کا نام استعمال کرنے والے حصہ دار بن چکے ہیں جن کا مقصد صرف اورصرف بلوچ کے نام کو استعمال کرکے دولت بٹورنا ہے۔
ایف بی ایم کے بیان کے مطابق بلوچ قوم اور آزادی پسندوں کو بی این پی مینگل، بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کی اصلیت کو پہچاننا ہوگا جوکہ آج بلوچستان کے سودا گر بن چکے ہیں کیونکہ پاکستانی فوج کی پیداوار بلوچستان عوامی پارٹی ہو یا یہ نام نہاد قوم پرست جماعتیں ہوں ان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ پارٹیاں کسی نہ کسی حکومت کے اتحادی رہ چکے ہیں۔ جب یہ حکومتی اتحاد کا حصہ بنتے ہیں تو نلکا پانی، تعلیم، اور صحت جیسی چھوٹے مسائل جو ان کے اختیارات میں ہوتے ہیں ان کو بھی حل کرنے کے بجائے دونوں ہاتھوں سے دولت بٹورتے ہیں تو کس طرح بلوچ قوم ان کے جھوٹے دعووں پر اعتبار کرسکتی ہے کہ یہ پارٹیاں بلوچ مفادات ، بلوچ سرزمین اور وسائل کی حفاظت کے لیے سیاسی جدوجہد کر رئے ہیں؟
پہلے یہ پارلیمانی تنظیمیں اپوزیشن بن کر بلوچ قوم پرستی کی بات کرتے ہیں، حکومتی اتحادی بن کر پیسہ بٹورتے ہیں اور حکومتی اتحاد ختم ہونے پر راتوں رات انقلابی اور قوم پرست بن جاتے ہیں۔ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال بی این پی مینگل ہے جو کہ ایک طرف پاکستانی وفاقی حکومت میں عمران خان کی اتحادی رہی، اتحاد کی شرط بلوچ مسنگ پرسنز کی رہائی سے منصوب کی گئی جو پاکستانی وزیر اعظم سے زیادہ پاکستانی فوج کے اختیارات میں ہے، بحثیت اتحادی بی این پی مینگل نے دس ارب روپے کے قریب فنڈز عمران خان کی حکومت سے لیے اور جب پنجابی فوج کے سربراہ جرنل باجواہ عمران خان کے خلاف ہوگئے تو بی این پی مینگل بھی عمران خان کے خلاف ہوگئی اور جواز یہ دیا گیا کہ عمران خان کی حکومت نے اپنے وعدے پورے نہیں کیئے ہیں ـ
کیا بی این پی مینگل سمیت دوسرے نام نہاد قوم پرست تنظیمیں اس بات سے آشنا نہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج لوگوں کو اٹھاتی ہے، ان کو قتل کرتی ہے اور پاکستان کی فوج ہی اپنی پالیسیوں کے تحت ٹارچر سیلوں سے جب چاہے بلوچ اسیروں کو رہا کرتی ہے جب چاہے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دیتی ہے؟ کیا ان پارٹیوں نے اب تک پاکستانی فوج کے خلاف کوئی منظم سیاسی مہم چلائی؟
فری بلوچستان موومنٹ کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان میں یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کے معاملات میں پاکستانی سیاست دانوں کو بہت کم اختیارت حاصل ہیں مگر مقبوضہ بلوچستان میں جعلی پارلیمانی نظام کے پیروکار پنجابی فوج سے تعلقات خراب نہیں کرتے اور دوسری طرف مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی سیاست دانوں پر تمام تر سیاسی ملبہ ڈال کر بلوچ قوم کے سامنے اپنی فیس سیونگ کرلیتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے معاملے میں بھی دیکھا جائے تو بی این پی مینگل اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی مقبوضہ بلوچستان میں قائم فوجی حمایت یافتہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی ہے اور سابقہ وزیر اعلی جام کمال کو ہٹھانے اور موجودہ وزیراعلی عبدالقدوس بزنجو کو لانے میں بی این پی مینگل کے کردار سے تمام بلوچ قوم با خوبی واقف ہے۔ تو کیا یہ بلوچ پاکستانی پارلیمانی پارٹیاں بلوچ قومی وسائل ریکوڈک نیلام کرنے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں؟
بیان میں مزید کہا گیا کہ مقبوضہ بلوچستان میں جعلی پارلیمانی نظام میں موجود دیگر قوم پرستی کے دعوے دار پارٹیوں اور بی این پی مینگل میں صرف ایک واضح فرق ہے جو کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی سودے بازی کی پوزیشن کو دوسرے پارٹیوں سے زیادہ مضبوط کرتی ہے۔ بی این پی مینگل پاکستان سے ہر ڈیل کے دوران مغربی ممالک میں اپنے سیاسی اثاثوں کو آزاد بلوچستان کی تحریک کے نام پر عارضی طور پر سرگرم کرتی ہے تاکہ پاکستان پر سیاسی دباو ڈال کر اپنے من پسند معاشی مفادات حاصل کرسکے۔ یہ طریقہ کار بی این پی مینگل گذشتہ چند سالوں سے استعمال کررہی ہے اور آگے بھی وہ اسی طرح بلوچستان اور پاکستان کی سطح پر قوم پرستی کے نام پر یہ کھیل کھلیں گے۔
فری بلوچستان موومنٹ نے آزادی پسند تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ بہت سے آزادی پسند تنظیموں کی بی این پی مینگل ، بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی سے رابطے ہیں اس کے علاوہ پارلیمان پرست تنظیموں کے بہت سے آلہ کار آزادی پسند تنظیموں میں موجود ہیں جو کہ آزادی کی جدوجہد سے زیادہ پارلیمان پرستوں سے وفادار ہیں۔ آزادی پسند بلوچ سرزمین کا دفاع کرتے ہیں تو دوسری طرف بی این پی مینگل کی لیڈرشپ اپنے آبائی علاقے میں ایف سی کا قبضہ کیا ہوا چھاونی کی زمین کا معاوضہ لیکر ناجائز قبضے کو جائز بنادیتے ہیں۔
کیا آزادی پسند تنظیمیں اور بی این پی مینگل کی سیاست ایک دوسرے سے مکمل متضاد نہیں؟ پاکستان پرست بلوچ پارلیمانی پارٹیوں اور بی این پی مینگل کا ایک پرائس ٹیگ ہے۔ گوادر سمیت بلوچستان کے دوسرے معاملات پر ان کی چین کے ساتھ بھی ہم آہنگی ہے۔ اسی لیے مراعات حاصل کرنے کے لیے ان پاکستان پرست بلوچ پارٹیوں کی طرف سے گوادر سمیت دوسرے مسائل پر شورشرابا تو کیا جاتا ہے لیکن قیمت وصول ہونے کے بعد عارضی طور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ صرف ایک آزاد بلوچستان میں حقیقی جہوریت اور پارلیمانی نظام قائم کیا جاسکتا ہے کیونکہ پاکستانی قابض کی طرف سے مسلط کیا گیا موجودہ جعلی پارلیمانی نظام نہ ہی بلوچ کے بنیادی انسانی ضرورتیں پورا کرسکتا ہے اور نہ ہی بلوچ مفادات کی حفاظت کرسکتا ہے۔