(ہمگام اداریہ) بلوچستان میں قابض ریاست پاکستان اپنے پورے قوت کے ساتھ حملہ آور ہونے کی ناصرف واضح اشارے دے رہا ہے بلکہ گذشتہ طویل عرصے سے جاری بلوچ آبادیوں پر ٹارگٹڈ آپریشن کو وسعت دیکر وسیع پیمانے اور مزید شدت کے ساتھ پھیلانا چاہتا ہے جس کا آغاز گذشتہ دنوں کوہلو کے علاقوں جھبر ،نساو ، سیاہ کوہ ، اندرا اور چھپر میں اپنے دور مار توپوں ، سینکڑوں فوجیوں اور جیٹ طیاروں و ہیلی کاپٹروں سے حملہ آور ہوکر کئی معصوم جانوں کو ضائع کرنے کا سبب بنا ، ببانگ دہل آپریشن اور جیٹ طیاروں کا اعلان یہ واضح کرتی ہے کہ آنے والے دنوں میں بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنوں اور بلوچ نسل کشی کے شدت میں مزید اضافہ کیا جائے گا اور دوسری طرف لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو شہید کرکے جاہِ آپریشن پر پھینک کر انکو جعلی مقابلوں کی صورت میں شہید کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا ۔ ایک طرف قابض پاکستان بلوچستان میں ایک وسیع آپریشن کیلئے پر تول رہا ہے تو دوسری طرف اس آپریشن کیلئے کافی وقت سے راہ ہموار کرنے کیلئے ایک پروپگینڈہ مہم پر بھی کاربند نظر آتا ہے ، جس کا شدت کے ساتھ آغاز مستونگ میں پشتون قوم کے 21 باشندوں کے سفاکانہ قتل کے بعد باقاعدہ طور پر ہوگیا ، اس پروپگینڈہ مہم میں جہاں پاکستانی میڈیا اپنے فوج کو مکمل طور پر سپورٹ کرتی نظر آرہی ہے تو دوسری طرف بلوچ مسلح تنظیموں کے اندر گھسے ہوئے قابض ریاست کے پروردہ ایجنٹ بھی اپنا اہم کردار نبھاتے نظر آرہے ہیں ، یاد رہے کہ مستونگ میں پشتونوں پر حملے کی ذمہ داری ایک متنازعہ مسلح تنظیم یو نائیٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کیا تھا جس کے سربراہ بیرون ملک مقیم مھران مری ہیں اور تنظیم کے سربراہ ہونے کے باوجود مھران مری نے اس حملے کی مذمت کی تھی ، اس مذمتی بیان کے بعد بلوچ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ظاھری طور پر یہ لگ رہا ہے کہ یو بی اے نامی تنظیم اب پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں آچکی ہے یا پھر اسکے کچھ اہم کمانڈر پاکستان کے اشاروں پر ایسی کاروائیاں کررہے ہیں تاکہ اس وسیع تر آپریشن کی راہ ہموار کی جاسکے ، یاد رہے یو بی اے چار سال سے متحرک نظر آرہی ہے اور بلوچ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ان لوگوں کی تنظیم ہے جو بے ضابطگیوں اور مالی بد عنوانیوں کی وجہ سے بی ایل اے سے نکالے جاچکے ہیں اور انکے کچھ کمانڈر تو بی ایل اے کو مطلوب ہیں ۔ اب حالیہ دنوں میں قابض ریاست اپنا ایک اور پروپگینڈہ حربہ مختلف لوگوں کو ہتھیار پھینکوانے کے مناظر ٹی وی پر دِکھاکر اور انہیں مسلح تنظیموں کے کمانڈر ظاھر کرکے آزما رہا ، اور حیرت ناک طور پر ریاست کے اس پروپگینڈہ مہم کو کامیاب کرنے کیلئے سب سے زیادہ سہولت قابض کو دوبارہ متنازعہ مسلح تنظیم یو بی اے سے مل رہی ہے کیونکہ ابتک یو بی اے کے چار کمانڈر جن میں قلاتی ، شکاری ، موالی اور مدینہ شامل ہیں میڈیا کے سامنے ہتھیار پھینک چکے ہیں اور اپنے پروپگینڈے کو مزید وسعت دینے کیلئے قابض ریاست کا حتی الامکان کوشش ہے کہ کسی بھی طور کسی بھی شخص کو لاکر اسے بی ایل اے جیسے منظم تنظیم کا کمانڈر ظاھر کریں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قابض اصل میں بلوچ عوام کے حوصلے پست کرنا چاہتی ہے اور دشمن ریاست اس بات سے واقف ہے کہ یو بی اے بلوچ سیاست و سماج میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اسلیئے اسکے کمانڈروں کے سرنڈر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ، اس لیئے وہ ایک طرف سے درون خانہ بی ایل اے کے مختلف کمانڈروں کے بابت افواہ پھیلا کر بدگمانی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف یو بی اے کے ہی کچھ سرنڈر کرنے والے کارندوں کو بی ایل اے سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ قابض کے اس پروپگینڈہ جنگ میں سرفراز بگٹی ، جنگریز مری اور ثناء اللہ جیسے ریاستی گماشتے بھرپور طریقے سے متحرک نظر آرہے ہیں ، سیاسی مبصرین کے مطابق مری میں معاہدے کے بعد اب بلوچستان کے اگلے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کو مسلم لیگ ن سے ہونا ہے ، اب اس دوڑ میں ثناء اللہ زھری اور جنگریز مری قابض ریاست کو خوش کرنے کیلئے خود کو زیادہ سے زیادہ اہم اور وفادار ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس لیئے جنگریز مری نے پہلے سے ہی ریاست کے پروردہ ایجنٹس کو سرنڈر ظاھر کرکے کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تو ثنا ء اللہ زھری نے خود کو جنگریز سے زیادہ وفادار ظاھر کرنے کیلئے کچھ لوگوں کو جمع کرکے ہتھیار پھینکوانے کا ڈرامہ رچایا ۔ ان تمام عوامل سے یہ بات ظاھر ہوتی ہے کہ قابض ریاست اب دو رخی پالیسی کے ساتھ بلوچ قوم پر آتش و آہن برسانے کی بھر پور تیاری کرچکا ہے جہاں ایک طرف اس آپریشن کیلئے جواز گڑھنے اور قوم کے حوصلے پست کرنے کیلئے باقاعدہ پروپگینڈہ مہم چلایا جائے گا تو دوسری طرف اپنے ریگیولر آرمی اور ائیر فورس کو پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جائے گا ۔