کراچی (ہمگـام نیوز) بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ماضی کی روایت کو برقرار رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی اور آئے دن جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ ماورائے عدالت کیسز ہیں، جن کو لاپتہ کرنے کے بعد کہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے کراچی و کوئٹہ سے چار افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ لاپتہ ہونے والوں میں سے تین کو کراچی اور ایک کو کوئٹہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے لیاری سے گذشتہ شب وحید بلوچ نامی نوجوان کو فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔ خاندانی ذرائع نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کل رات سندھ رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار جو ایک سیاہ رنگ ویگو گاڑی میں سوار تھے انہوں نے وحید بلوچ کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔ اسی طرح جبکہ کراچی ہی سے اطلاعات ہیں کمبر سلیم سکنہ بلیدہ مہناز جو کراچی یونیورسٹی میں بی ایس ایگریکلچرل کا طالب ہے جنہیں فورسز نے کل کراچی سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔
ایک اور واقعہ کراچی میں پیش آیا ہے جہاں کراچی یونیورسٹی کے بائیو کیمسٹری کے طالب عرفان ولد عبدالرشید سکنہ بلیدہ مہناز کو گذشتہ شب کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے فورسز نے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
اسی طرح فیروز بلوچ نامی ایک طالب علم جو کہ ایرڈ یونیورسٹی راولپنڈی میں 2nd Semester میں زیر تعلیم تھے وہ کل یعنی 11 مئی سے لاپتہ ہیں ہمیں شک ہے کہ فیروز بلوچ بھی جبری گمشدہ کئے گئے ہیں کیونکہ ان کی جبری گمشدگی کے بعد مقامی پولیس F.I.R درج نہیں کر رہی ہے یہ بات پولیس اسٹیشن پہ موجود طلباء کے ذریعے موصول ہوئی ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ یہ وہ طلباء ہی ہیں جو ایک حساس دل رکھ کر مظلوم قوم کے مظلوم لوگوں کی جانب سے منعقد کئے جانے والے مظاہروں میں آتے ہیں اور بحیثیت قوم اپنا فرض نبھاتے ہیں انہیں بس اسی وجہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے باقی اس کے علاوہ ان طلباء کا کسی سیاسی و سماجی تنظیم سے کوئی واسطہ و تعلق نہیں ہوتا ہے انہیں اگر جبراََ لاپتہ کیا جارہا ہے تو اس کا اول و واحد وجہ بس یہی ہے کہ یہ لاپتہ افراد کے و دیگر مظاہروں میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں۔ گزشتہ بیس دنوں میں 10 سے زائد طلباء کو جبری گمشدہ کیا گیا، اور یونیورسٹیز میں طلباء کو ہراساں کیا جارہا ہے یہ طلباء اپنے گھروں سے یونیورسٹی پڑھنے کے لئے آتے ہیں نہ کہ اپنے ساتھی طالب علموں کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہروں کے لیے۔ ہم آئے روز کی طرح ایک بار پھر حکومتِ وقت و حکامِ بالا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے الجھے اور گمبھیر مسئلے کو سلجھانے کی کوشش میں اپنے خدمات پیش کریں نہ کہ اسے مزید الجھانے میں اپنی محنت و مشقت جاری رکھیں یونیورسٹیز اوردیگر تعلیمی اداروں میں طلباء کو ہراساں کرنا بند کیا جائے اور انہیں چین سے ان کی تعلیمی سرگرمیاں پورے کرنے دی جائیں۔