پنجشنبه, اکتوبر 10, 2024
Homeخبریںسوشل میڈیا و دیگر مختلف ذرائع سے تنظیم کے خلاف بے بنیاد...

سوشل میڈیا و دیگر مختلف ذرائع سے تنظیم کے خلاف بے بنیاد پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔بی ایس او آزاد

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بی ایس او آزاد کی مرکزی کمیٹی کا دسواں اجلاس زیرصدارت مرکزی جونیئروائس چئیرمین کمال بلوچ منعقد ہوا۔ اجلاس میں سہ ماہی تنظیمی رپورٹ، تنظیمی امور، سیاسی صورتحال، تنقیدی نشست، و آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ بلوچ شہدا کی یاد میں دو منٹ کی خا موشی کے ساتھ اجلاس کا باقاعدگی سے آغاز کیا گیا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک میں بی ایس او آزاد ہمیشہ سے ایک اہم رول ادا کرتا آرہا ہے، بلوچ نوجوانوں میں سیاسی شعور اُجاگر کرنے اور انہیں بلوچ تحریک آزادی کا باقاعدہ حصہ بنانے میں بی ایس او آزاد کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ مقامی گماشتوں، پارلیمنٹیرینز، سرداروں و دیگر باجگزار پارٹیوں نے ریاستی آشیر باد سے ہمیشہ بی ایس او آزاد کو کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن نوجوانوں کی وابستگی ہمیشہ اُن کی مکروہ عزائم کو ناکام بنانے کا سبب بنے۔ اسی وجہ سے بی ایس او آزاد بلوچ نوجوانوں میں اپنی وجود برقرار رکھتے ہوئے آج بلوچ سیاست میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم کی مثبت سرگرمیوں و سیاسی تعلیم کو نوجوانوں میں عام کرنے کی وجہ سے ریاست و اس کے باجگزاروں کی آنکھوں میں بی ایس او آزاد کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے، بی ایس او آزاد کو کمزور کرنے اور نوجوانوں کو تحریک سے دور رکھنے کے لئے ریاستی ادارے و مقامی سردار بی ایس او آزاد کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ ایک پالیسی کے تحت نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لئے سوشل میڈیا و دیگر مختلف ذرائع سے تنظیم کے خلاف بے بنیاد پروپگنڈہ کیا جارہا ہے، پہلے نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل و دیگر ریاستی ادارے تنظیم کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے، اُن کی ناکامی کے بعد نیشنل پارٹی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی آزادی پسند تنظیم کے چند لوگوں نے بی ایس او آزاد کی لیڈر شپ کے خلاف باقاعدہ پروپگنڈوں کاآغاز کردیا، تنظیمی لیڈر شپ کا نام میڈیا میں لانے، ان کی سرگرمیوں کو میڈیا میں واضح کرنے ،ان کے حوالے من گھڑت باتیں پھیلانے و ان جیسی متعدد سرگرمیوں کا یہ گروہ باقاعدہ حصہ بن گئے۔ بی ایس او آزاد نے سیاسی طریقہ کار و اداروں کی ساکھ کو مدنظر رکھ کر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اور تاحال سیاسی مسائل پر بلوچ آزادی کے لئے سرگرم سیاسی پارٹیوں سے وقتاََ فوقتاََ رابطہ کررہی ہے تاکہ اعتماد و آپسی تعاون کا ایک ماحول پیدا ہو سکے۔ لیکن ایک آزادی پسند گروہ کے چند زمہ داران دانستہ بی ایس او آزاد کی ادارہ جاتی فیصلوں کی نہ صرف احترام سے گریزاں رہی، بلکہ تواتر کے ساتھ پروپگنڈے و کردار کشی جیسے اعمال جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چئیرمین زاہد، شہید رضا جہانگیر سمیت بی ایس او آزاد کی موجودہ قیادت کے ساتھ ساتھ بیرون و اندرونِ بلوچستان بی ایس او کے کارکنوں کی شناخت کو میڈیا میں لایا جا رہا ہے۔ بی ایس او آزاد اس طرح کی منفی سرگرمیوں کو سیاسی تنقید کے برعکس بد نیتی پر مبنی پروپگنڈہ و قوم دشمنی تصور کرتی ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ بی ایس او آزاد بغیر کسی لگی لپٹی کے بلوچ جہد آزادی میں سرگرم سیاسی پارٹیوں کی اتنی ہی احترام کرتی ہے جتنا کہ وہ بی ایس 
او آزاد کے سیاسی حیثیت کی احترام کرتے ہیں۔بی ایس او آزاد پر گروہیت پسندی کا الزام لگانے والے بی ایس او آزاد کی فعال حیثیت سے خوفزدہ ہو کر اپنے گروہی و کاروباری سوچ کی موت کو واضح طور پر محسوس کررہے ہیں۔قومی تحریک و آزادی کے نام پر ہونے والی ان کی کاروبار سے بلوچ نوجوان بخوبی واقف ہو رہے ہیں، اس سے حواس باختہ ہو کر مزکورہ گروہ بی ایس او آزاد کی آئین کا احترام نہ کرنے پر سزا پانے والے ورکران کو لالچ و دھوکہ و جھوٹ و فریب سے بی ایس او آزاد کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ لیکن بی ایس او آزاد بلوچ قوم کا اثاثہ ہے، جسے چند نام نہاد لوگ تنقیدو اصلاح کے نام پر کمزور نہیں کرسکتے۔بی ایس او آزاد کی قیادت تنظیم کو کسی گروہ کی جی حضوری کرنے والے گروہ کے ہاتھوں میں دے کر تاریخ میں خود کو گنہگار نہیں ٹہرا سکتی، اور نہ ہی نوجوانوں کے جمہوری و پر امن پلیٹ فارم کو کسی مسلح تنظیم کی باجگزار بنا کر نوجوانوں کو گمراہ کرے گی۔ تنظیم کی آزاد حیثیت پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے ہی یہ لوگ تنظیم کی آزاد حیثیت سے انکاری ہیں۔ رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف باقاعدہ طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ منظم طریقے میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ تحریک کے خلاف نیشنل پارٹی، ثنا ء اللہ زہری و دیگر ریاستی وفادار وں کی ایماء پر منظم طریقے سے پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ بلوچ عوام میں مایوسی پھیلانے و بلوچ نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع کو بیک وقت استعمال کیا جا رہا ہے، عالمی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری، گوادر سمیت ساحلی علاقوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ بلوچ آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے، و ان جیسی دیگر منصوبوں کا حصہ بننے والی کمپنیاں ریاستی فورسز کی ہر محازپر کمک کررہے ہیں۔ ان حالات میں بجائے اس کے کہ ریاستی عزائم کو ناکام بنانے کے لئے مشترکہ حکمت عملیوں کی تشکیل پر توجہ دیا جائے، یہ گروہ تحریک آزادی میں سرگرم سیاسی پارٹی و تنظیموں کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔ اس طرح کے غیر سنجیدہ اعمال چاہے کسی بھی پارٹی کی طرف ہوں، بی ایس او آزاد انہیں قومی مفادات کے متضاد تصور کرکے ہر فورم پر ان کی حوصلہ شکنی کرتی رہیگی۔اجلاس میں سیاسی صورتحال کے ایجنڈے پر بحث کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ سرزمین کی جغرافیائی حیثیت و اس سرزمین کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے والے ممالک کی سرگرمیاں بلوچ شناخت کے لئے سنجیدہ خطرہ ہیں، چائنا کی پاکستان کے ساتھ کروڑوں ڈالرز کی معاہدوں پر دستخط اور پاک چائنا اقتصادی راہداری و گوادر پورٹ کو فنکشنل کرنے اور بلوچ قوم کو اپنی ہی سرزمین میں اقلیت میں بدلنے کے نام پر ان پروجیکٹس کی کامیابی کو بلوچ کی خوشحالی کا نام دیکر دراصل ریاستی ادارے انہی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لئے بلوچ تحریک کے خلاف طاقت کا بھر پور استعمال کررہے ہیں اور انہی کی ایما پر اب تک، ہزاروں خاندانوں کو ان کی آبائی علاقوں سے نکل مکانی کرنے پر مجبور کیا جاچکاہے، تاکہ بلوچ عوام کو منتشر کرکے بلوچستان میں اپنی استحصالی پالیسیوں کو جاری رکھا جا سکے۔ اور اس ضمن میں دس ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک اسپیشل فورس بھی انہی پروجیکٹس کو کامیاب کرنے و بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے و چائنا کو خوش کرنے کیلئے تشکیل دی جاچکی ہے ۔بلوچستان میں چائنا کی حالیہ معاہدوں کو تحفظ دینے و ان کو کامیاب کرنے کیلئے ریاست کی جانب سے بلوچستان میں آپریشن کا اعلان ونام نہاد کمیٹیوں کا قیام و مستونگ،اسپلنجی،منگوچروقلات میں حالیہ دو مہینوں کے دوران فضائی و زمینی آپریشن سے اب تک 60سے زائد بلوچ فرزنداں شہید جبکہ سینکڑوں اغواء ہوچکے ہیں اور اب ’’مارو اور پھینک دو‘‘کی کاؤنٹر پالیسیوں کو وسعت دیتے ہوئے ریاست بلوچ تحریک کو غلط رنگ دینے کیلئے بلوچ فرزنداں و سیاسی ورکران جو اسکی زیر حراست ہیں انکی لاشین پھینک کر انہیں مقابلے میں مارے جانے اور دہشتگرد ظاہر کرنے کی سعی کررہا ہے ریاست پاکستان اپنی غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے و بلوچ ساحل وسائل کو لوٹنے کیلئے بلوچ سرزمین کو دوسرے 
سامراجی کمپنیز وچائنا جیسے توسیع پسندانہ ذہنیت رکھنے والے ملک کے ہاتھوں سستے داموں میں بھیچ کر انکی معاؤنت سے بلوچ نسل کشی میں شدت لارہی ہے اس کے باوجود انسانی حقوق کی عالمی اداروں کی خاموشی ہمارے لئے باعث تشویش ہے ۔بلوچ جہد آزادی کو عالمی سطح پر کمزور و غلط رنگ دینے کیلئے روز اؤل سے پاکستان مختلف بہانے استعمال کررہا ہے کھبی سرداریت سے تشبیہ دیتا ہے کبھی کسی زاتی تنازعے کا شاخسانہ جبکہ حالیہ 15سال سے جہد آزادی کے خلاف برسر پیکار پالیمنٹیرین بی این پی مینگل،بی این پی عوامی،نام نہاد سرداروں اور نیشنل پارٹی و انکی نام نہا د قیادت کو نیشنلسٹ قوت ظاہر کرکے بلوچ سیاسی تاریخ کو مسخ کررہی ہے اور اقتدار و مراعات کی حوس میں انہی قوتوں کو بلوچ قومی طاقت کو منتشر کرنے کیلئے استعمال کررہا ہے آج پنجگور،بالگتر،تربت،دشت،پسنی،گوادر مستونگ ،منگچر،خضدار،سوراب،قلات ،نال ،حب سمیت مختلف علاقوں میں نیشنل پارٹی قیادت جنہیں بلوچ سوسائٹی اپنے لئے زہر قاتل تصور کرچکی ہے انہی کی سربراہی میں پرائیوٹ پراکسی گروہ تشکیل دے کر بلوچ سیاسی ورکروں و تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ریاستی اداروں کے ہاتھوں اغواء و شہید کروا رہے ہیں انہی عناصر کو قوم دوست کے طور پر متعارف کروا کر عالمی دنیا کو یہاں جاری جہد آزادی کو چند مُٹھی بھر عناصر کی جدوجہد قرار دے کر دراصل پاکستان اپنا مکروہ چہرہ کو چھپانا چاہتا ہے ۔بلوچ سیاسی قوتوں کو چاہیئے کہ بلوچ سرزمین کے خلاف ملٹی نیشنل کمپنیز و چائنا سمیت ہر اس عناصر کے خلاف جامع حکمت عملی ترتیب دے کر انکی استحصالی پالیسیوں کو ناکام بنانے کیلئے آپس میں صف بندی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے بھی ایسے عناصر پیدا نہ ہو جو انہی پالیسیاں کو تحفظ فراہم کریں۔ مستونگ ، قلات، مشکے، مکران ، آواران و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والی ریاستی حالیہ دہشتگردی و اس کے نتیجے میں ہونے والی سینکڑوں ہلاکتوں سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ بلوچ کی مرضی کے برعکس وسیع پیمانے پر ہونے والی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لئے ریاستی ادارے آئندہ اس طرح کی کاروائیوں میں شدت لا ہینگے۔ اس طرح کی سرمایہ کاریوں سے جہاں بلوچ قومی شناخت کو خطرہ ہے وہیں چائنا کی توسیع پسندانہ عزائم سے خطے میں پاکستان کی وجہ سے امن کی مخدوش صورتحال میں مزید بگاڑ پید ا ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ چائنا کی برما و دیگر افریقی ممالک میں سرمایہ کاری اور وہاں کے مقامی باشندوں کی معاشی و سیاسی حوالے سے عدم استحکام اس بات کا دلیل ہے کہ سامراجی سرمایہ کار اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر محکوم قومیتوں کی مرضی کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اس لئے بلوچ قوم اپنے آزاد ریاست کی بحالی سے پہلے سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کو برداشت کرکے قومی مستقبل کو داؤ پر نہیں لگا سکتی۔ اجلاس میں تنقیدی نشست و آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈوں پر تفصیلی مباحثہ کیا گیا۔مرکزی اجلاس میں شال زون کے معطل کارکنان کی تنظیمی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر بنیادی رکنیت ختم کردی گئی جبکہ سنٹرل کمیٹی کے سابقہ ممبران میرین و ستار بلوچ کی بنیادی رکنیت کرپشن ثابت ہونے، و تنظیم کے خلاف پروپگنڈہ کرنے کی وجہ سے ختم کر دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز