چهارشنبه, اکتوبر 9, 2024
Homeخبریںسمی بلوچ کا کراچی پریس کلب میں والد کی 6 سال سے...

سمی بلوچ کا کراچی پریس کلب میں والد کی 6 سال سے عدم بازیابی کے خلاف پریس کانفرنس

کراچی (ہمگام نیوز)بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے اسیر مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ کا کراچی پریس کلب میں والد کی 6 سال سے عدم بازیابی کے خلاف پریس کانفرنس،میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں سمّی بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی، بلوچستان کے بہت ہی پسماندہ اور دورافتادہ علاقے مشکے آواران سے آئی ہوں۔
ہم، ہمارے گاؤں میں ایک بہت ہی عام، سادہ مگر قدرے پرسکون زندگی گزار رہے تھے کہ آج سے چھ سال قبل، آج ہی کے دن، 28جون 2009 کو میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو سیکورٹی اہلکار اغواء کرکے لے گئے۔ اُس دن سے لے کر آج تک، میں اور میرا خاندان ایک انتہائی کربناک زندگی گزاررہے ہیں۔ سکون کا ایک لمحہ بھی ہمیں نصیب نہیں۔ ہماری تعلیم، گھریلو اور سماجی زندگی سب کچھ تہس نہس ہوکر رہ گئی ہے۔ میرے والد پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں، جس نے ایم بی بی ایس پاس کرنے کے بعد بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے توسط سے میڈیکل آفیسر کا عہدہ حاصل کیا اور بلوچستان کے دیہاتوں میں غریب عوام کی خدمت کرتے رہے۔ ساتھ ہی وہ ایک جمہوری سیاسی پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) سے بھی وابسطہ تھے۔ کسی تعلیم یافتہ شخص، ڈاکٹرا ور پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے کو اس طرح اغواء کرکے سالہا سال ان کے خاندان کو بے خبر رکھ کر تمام بنیادی انسانی حقوق و قوانین کی پامالی کی جارہی ہے۔ انہیں کسی پوشیدہ یا مشکوک جگہ سے نہیں بلکہ اپنی ڈیوٹی کے دوران گرفتار کرکے لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ یوں اس طرح کی مثالیں بہت ہیں، بی این ایم کے سربراہ کو ان کے وکیل کے دفتر سے اغواء کرکے ماورائے عدالت قتل کرکے لاش ویرانے میں پھینک دی گئی۔ یہی خوف و خدشہ ہمیں بھی ہے کہ اگر میڈیا، انسانی حقوق کے اداروں نے اپنی ذمہ داریاں نہ نبھا کر ہمارے ان مسائل کو حل کرنے میں مدد نہیں کی تو میرے والد سمیت ہزاروں بلوچوں اور خود ہمیں انہی ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی رہے گی۔
28جون 2009 کا دن بھی ایک عام ہی سا دن تھا، میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ خضدار کے علاقہ اورناچ میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے کہ رات کے وقت مسلح افراد دروازے توڑ کر انکی سرکاری رہائشگاہ میں داخل ہوئے، انہیں بے حد تشدد کا نشانہ بنایا اور ہاتھ پاؤں باندھ کر گاڑی میں اپنے ساتھ لے گئے۔ انکے ساتھ انکی رہائشگاہ میں سرکار کی طرف سے فراہم کردہ چوکیدار بھی موجود تھا، جنکو سیکورٹی اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بناکر ہاتھ پاؤں باندھ کر وہیں چھوڑ دیا۔
معزز صحافی حضرات ،میرے والد ایک انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، انکے والدین نے انتہائی تنگدستی کی حالت میں اپنی تمام تر توانائی بچوں کی تعلیم پر صَرف کی۔ پہلی جماعت سے لے کر، ایم بی بی ایس تک اپنے بچے کو پڑھانا، شہر میں آپ لوگوں کیلئے پتہ نہیں کیسا ہوگا لیکن ایک غریب دیہاتی خاندان، جنکے پاس معاش کا کوئی بھی متعین ذریعہ بھی نہیں، یہ انکے لئے حد سے زیادہ مشکل ہے کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم پوری کروائیں۔اور پھر جب میرے والد کی تعلیم مکمل ہوئی، کام پر لگ گئے، تو سرکاری اہلکار انہیں بغیر کوئی وجہ بتائے اٹھا کر لے گئے۔ میرے والد کی وہی والدہ، جس نے اپنی تمام زندگی اسی خواب میں گزاری کہ ایک دن انکا بیٹا ڈاکٹر بن کر انکے بڑھاپے کا سہارہ بن جائیگا، میری وہ دادی ماں اپنے بیٹے کے غم میں سسکتی رہی، اور آخری سانس تک میرے والد کا نام پکارتے ہوئے اس دنیا سے رُخصت ہوئی، اور ہم صرف اتنا ہی کہہ پائے کہ ’’اللہ خیر کرے گا، ابّا مل جائیں گے۔‘‘
معزز صحافی حضرات!جس دن سے میرے والد اغواء ہوئے ہیں، اس دن سے آج تک ہماری زندگی میں سکون اور چین کا ایک دن بھی نہیں آیا، ایف آئی آر سے لے کر کورٹ پٹیشن، عدالتی کمیشن تک سارے قانونی طریقے آزمائے۔ پریس کانفرنس سے لے کر بھوک ہڑتال، احتجاج اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک ہزاروں کلومیٹر لانگ مارچ، جمہوری احتجاج کے تمام ذرائع بھی استعمال کئے، لیکن کوئی بھی قانونی و جمہوری عمل کارگر ثابت نہ ہوسکا۔ہم نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ہمارے والد کو فوراً رہا کیا جائے، بلکہ جو قانونی فریم ورک اور طریقہ کار جو اس ریاست نے خود مختص کیے ہیں، کم از کم اُنہی پر ریاستی ادارے خود تو عمل کرلیں۔ انسانی حقوق کے جتنے عالمی مسودوں پر ریاست پاکستان نے دستخط کئے ہیں، اُنکی تو پاسداری کی جائے۔
ہم آپ سب کے توسط سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے ابو کو عدالت میں پیش کیا جائے، اگر ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا جائے، انہیں اپنے دفاع کا قانونی حق دیا جائے، اگر ان پر کوئی الزام ثابت ہوا تو عدالتیں ہی انہیں سزا دیں۔ ہم انسانی حقوق کے تمام اداروں، اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری دادرسی کرتے ہوئے ریاستِ پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ ہمارے ابو کو منظرِ عام پر لے آئیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز