سه شنبه, اکتوبر 8, 2024
Homeخبریںبی ایس اوکے اندر سے انقلابی سو چ ورویہ ختم ہو چکاہے...

بی ایس اوکے اندر سے انقلابی سو چ ورویہ ختم ہو چکاہے سابق سی سی ممبران

کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی کمیٹی کے مستعفی ارکان میرین بلوچ اور ستار بلوچ نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بی ایس او آزاد کے متنازعہ جونیئر وائس چیئرمین کمال بلوچ کی طرف سے جاری کردہ مرکزی کمیٹی کا یہ بیان کہ ہمیں کرپشن کے الزام میں تنظیم سے نکالا گیا ہے مزاحقہ خیز دروغ گوئی ہے ، بی ایس او آزاد سے نکالے جانے اور کرپشن کے الزامات بے بنیاد ہیں بلکہ آج سے پانچ مہینے پہلے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کے دوران تنظیم کی جانبداریت اور غیر سیاسی رویوں سے اختلاف رکھتے ہوئے ہم دونوں نے اپنے استعفیٰ پورے سینٹرل کمیٹی کے سامنے پیش کرکے فارغ ہوگئے تھے ، اب بی ایس او آزاد پر مسلط یہ گروہ اپنے گرتی ہوئی ساکھ اور تنظیم کے بکھرتے ہوئے شیرازے کو سنبھالنے کیلئے انتہائی غیر سیاسی اور غیر اخلاقی الزامات کا سہارا لیتے ہوئے یہ ظاہر کررہا ہے کہ ہمیں تنظیم سے نکالا گیا ہے۔تنظیم کے چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ سمیت کابینہ کے انہی من مانیوں اور تنظیم کو اپنے نرغے میں بنائے رکھنے اور تنظیم کو ایک مخصوص شخصیت کے تابع بنائے رکھنے کی وجہ سے تنظیم سے ابتک کئی مرکزی ارکان اور کارکنان مستعفی ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے تنظیم ایک مکمل بحران کا شکار ہو چکا ہے جسے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی۔تنظیم کے اندر سے انقلابی سو چ اور انقلابی رویے بالکل ختم ہو چکے ہیں۔
وہی بی ایس او جو پورے بلوچستان میں منظم تھااب بڑی مشکل سے تین زونوں تک محدود رہ چکاہے۔شال ، کراچی ، تربت زون بی ایس او کے سب سے بڑے زون تھے اب ہر جنرل باڈی میں بیس بیس ممبر کمال و کریمہ بلوچ کی غیر زمہ دارانہ فیصلوں پر واک آوٹ کرتے ہوئے تنظیم سے نکلتے جارہے ہیں، وہی شال زون جس کے ایک یونٹ کی تعداد کم از کم 300تک تھی اب پوری شال زون کی تعداد 27رہ چکی ہے ۔ مرکزی ارکان نے وضاحت کے ساتھ مزید کہا ہے کہ بی ایس او آ زاد اُسی دن تباہی کی طرف گامزن ہونا شروع ہوگیا جب کریمہ نے ایک مخصوص لابی کے زیر اثر رکھنے کیلئے تنظیم سے اختلافِ رائے رکھنے والے ، ذمہ داروں اور ممبروں پر بے بنیاد الزام لگا کر فارغ کرنا شروع کر دیا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ انہی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم( میرین و ستار) نے ہر سی سی میٹنگ میں ان مسائل کو زیر بحث لایا لیکن کسی نے کچھ نہیں سنا اور ہم اپنے نظریاتی سنگتوں کو بی ایس او سے فارغ ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔ اسکے باوجود ہم نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے تمام زونوں کو ان تمام مسائل سے آگاہ کیا اور ہم نے تمام ممبران کو یہی یقین دہانی کی کہ ہم وقت پر کونسل سیشن کریں گے اور تمام فارغ شدہ دوستوں کو واپس بی ایس او میں لائیں گے جو بلا وجہ فارغ کیئے گئے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ہم نے محسوس کیا کہ بی ایس او کا سینٹرل کمیٹی جو کونسل سیشن کے بعد دوسرا بڑا ادارہ ہے اسکی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور ہم برائے نام بی ایس او آزادکے سی سی ممبر ہیں۔ تمام فیصلے باہر ہو کر آتے ہیں یا کریمہ اور کمال سی سی میٹنگ میں ایک دوسرے کے کان میں بات کر کے فیصلے کرتے ہیں ۔
جسکی واضح مثال لطیف جوہر کی بھوک ہڑتالی کیمپ ہے۔ ہم نے سی سی میٹنگ میں زور دیا کہ لطیف کی احتجاج سے کُچھ نہیں ہونے والالہٰذا اسکی طبیعت بھی ابھی خراب ہے انہیں اب اٹھاتے ہیں جس پر کریمہ بلوچ نے جواب دیا کہ اب بی ایس او کے عز ت کا سوال ہے ہم اس طرح اسے نہیں اٹھا سکتے ،کچھ دن گزرنے کے بعد جنرل سیکریٹری نے ہم دونوں کو فون پر اچانک آگاہ کیا کہ سی سی کا میٹنگ ہوا ہے اور لطیف جوہر کا بھوک ہڑتال ختم کردیا گیا ہے۔ ہم حیران رہ گئے کہ سی سی ممبر ہوتے ہوئے ہمیں پتہ نہیں یہ میٹنگ کب اور کہاں ہوا ، اسی طرح کے من مانے فیصلے کرنے ، تنظیم کو اپنے مرضی پر چلانے ، اختلافِ رائے رکھنے پر کارکنان کی سرکوبی کرنے اور سینٹرل کمیٹی کی حیثیت کو محض ایک کٹھ پتلی ادارے کی حد تک محدود کرنے کئی مثالیں ہیں ، محض گذشتہ ایک سال کے دوران حیران کن حد تک بی ایس او آزاد کے سابق ارکانِ مرکزی کمیٹی میران بلوچ اور زامران بلوچ کو محض سوال کرنے اور کارکنان کے سامنے اختلافِ رائے رکھنے کی وجہ سے بلا جواز تنظیم سے فارغ کردیا گیا اور انہی رویوں کیخلاف احتجاجاًہم سمیت پانچ ارکان مرکزی کمیٹی مستعفی ہوچکے ہیں ،پانچ ماہ پہلے بی ایس او سے مستعفی ہونے سے پہلے ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ بی ایس او آزاد کو ان مسائل سے نکالا جائے، ہم نے بار بار سی سی اجلاس میں ان مسائل کو زیر بحث لایا۔ لیکن موجودہ لیڈرشپ اپنے غلطی ماننے کو تیار نہیں تھی اور محض تنظیم کو کنٹرول میں رکھنے اور اس کو جانبداریت کی جانب مائل با کرم کرنے کیلئے اختلافِ رائے رکھنے اور ان مسائل پر سوال کرنے والوں کو تنظیم سے نکالنے کے روش پر رواں رہا اس دوران نا صرف مرکزی ارکان بلکہ ممبران کے سوالات کا بھی کوئی خاطر خواہ جوابات نہیں دیا گیا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تنظیم ایک بڑے داخلی بحران کا شکار ہے اور اگر سیاسی و اخلاقی اصولوں کو دیکھا جائے تو تنظیم جب داخلی بحران کا شکار ہو اور لیڈرشپ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہو تو کونسل سیشن قبل از وقت بھی منعقد کی جاتی ہے لیکن یہاں کونسل سیشن کے مقررہ وقت کو ایک سال گذرچکا ہے لیکن موجودہ مسلط شدہ لیڈر شپ پھر بھی کونسل سیشن کرنے سے کترارہی ہے جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر ابھی کونسل سیشن منعقد ہوتی ہے تو انکے بد ترین کارکردگی کی وجہ سے تنظیم انکو ہاتھوں سے نکل جائیگی اس لیئے وہ کسی کونسل سیشن سے پہلے ان تماممبران و عہدیداران کو فارغ کرنا چاہتے ہیں جو ان سے اختلافِ رائے رکھتے ہیں ۔ ا س نا اہل قیادت کی وجہ سے ناصرف تنظیم داخلی بحران کا شکار ہے بلکہ تنظیم محض اخباری بیانات کی حد تک ہی محدود ہوچکی ہے کارکنان کی تربیت و تنظیم کاری صفر رہی ہے ان چیزوں کو دیکھ کر ہم محسوس کر رہے تھے کہ اگر اس بحران پر جلد از جلد قابو نہیں پایا گیا تو بی اس او آزاد بھی محی الدین اور پجار کی طرح بیانوں کی حد تک محدود ہوکر رہے گی۔ ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دونوں ارکانِ مرکزی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تنظیم کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے جائز نکات پر مبنی ایک “بیل آوٹ ڈرافٹ” پیش کیا جائے، ہم نے ساتویں سی سی اجلاس میں یہی ڈرافٹ پیش کیا جس کے بنیادی مطالبات یہی تھے کہ سیشن کا وقت مکمل ہوچکا ہے لہٰذا سیشن کا اعلان کیا جائے ، تنظیم کو غیر جانبدار بنایا جائے ، نکالے گئے یا ناراض مستعفی کارکنان و ذمہ داران کو باہمی مشاورت اور مذاکرات سے واپس تنظیم میں لایا جائے، اور ہم نے واضح طور پر ڈرافٹ میں یہ لکھا تھا کہ اگر اسی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حل کے تمام راہوں کو مسدود کرکے تنظیم کو ایک ٹولے کے زیر تسلط رکھا جائے گا اور اس ڈرافٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے گا تو پھر یہی ڈرافٹ ہمارا استعفیٰ ہے اور اپنا استعفیٰ بھی اسی ڈرافٹ میں مزین کردیا تھا ، تو ہم احتجاجاََ استعفی دینگے لیکن اپنے پرانے ہٹ دھرمی اور آمرانہ روش پر قائم رہتے ہوئے کریمہ بلوچ اور کابینہ نے ہمارے حل کے طریقے ڈرافٹ کو نا صرف ماننے سے انکار کردیا بلکہ کسی بھی ممکنہ حل کو خارج از امکان کردیا جس کے بعد ہم نے مجبوراً اسی وقت باقاعدہ استعفیٰ کا اعلان کر دیالیکن ہم نے اپنے استعفیٰ کو میڈیا میں نہیں لایا جس کے بہت سے وجوہات تھے، جس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے آج کمال بلوچ ہم پر کرپشن کا الزام لگا کر ہمیں نکالنے کا دعویٰ کررہا ہے ، اب ہمیں احساس ہوا کہ اس سے پہلے کیوں مستعفی اور ناراض کارکنان میڈیا میں جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ ہمارے مستعفی ہونے کے بعد کریمہ اور کمال مکران میں باقاعدہ سر گرم ہوگئے ان سے باقاعدہ کولواہ، بالگتر، تربت اور شال زون کے جنرل باڈیوں میں ممبران نے ہمارے استعفے کی بنیادی وجوہات پوچھیں تو کریمہ نے کہا کہ ان دونوں نے بیل آؤٹ ڈرافٹ پیش کیا لیکن سی سی کے اکثریت نے اسے رد کیا تو احتجاجاََ دونوں مستعفی ہوگئے۔ یہ بات وہی زون گواہ ہیں جن کی جنرل باڈی اسی ٹائم ہوئے تھے۔ باقی سارے زون جہاں سی سی دورہ کرنے گئے انہوں نے بھی یہی بات دہرائی کہ دونوں نے استعفی دے دیا ہے۔ اس وقت نہ کرپشن کی کوئی بات تھی نہ کچھ اور کیونکہ استعفیٰ کے بعد وہ متواتر ہم سے رابطے میں تھے کہ آپ دونوں اپنے استعفے واپس لے لیں۔ استعفیٰ کے تین چار مہینے بعد موجودہ انفارمیشن سیکریٹری جو آٹھواں سی سی میں چنا گیا تھا اس نے ہم سے رابطہ کر کے بیل آؤٹ ڈرافٹ کے پوائنٹس کو نرم کرنے کی بات کی اور کہا کہ باقی سی سی ممبران زونل یا سینئر ممبران کی بات چھوڑ کر آپ صرف تین سی سی ممبران (جو سوشل میڈیا کمیٹی اوردیگر مسائل کے بنیاد پراستعفیٰ دے چکی تھی) کے بارے میں بات کریں، لیکن ہم نے جواب دیا کہ مسئلہ ان تینوں کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ پورے تنظیم کا ہے۔ جسکے دس سی سی ممبران سے لیکر زونل اور یونٹ ممبران یا تو مستعفی ہوچکے ہیں یا تو نکال دےئے چکے ہیں۔اگر ہم نیوٹرل ہو کر تجزیہ کریں تو بی ایس او آزاد بالکل جانبدار ہو چکا ہے، لیکن اب اچانک کمال کے زیر صدارت اجلاس میں ہم پر کرپشن جیسا گٹھیا اور بے بنیاد الزام لگا کر ہمارے بنیادی رکنیت کو ختم کرنے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم پر کوئی کرپشن کا کیس تھا تو پہلے آپ ہمیں شو کاز کرتے ، ہماری سنوائی ہوتی ، ہمارا موقف جانا جاتا دنیا کے کسی بھی قانون میں کرپشن کے الزام کے بابت طریقہ کار یہی ہوتا ہے لیکن چار مہینے پہلے مستعفیٰ ارکان پر کرپشن کا یکطرفہ الزام لگا کر انہیں تنظیم سے نکالنا ظاہر کرتا ہے کہ بی ایس او آزاد کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی یہ مسلط شدہ ٹولہ اب بوکھلاہٹ اور غیر اخلاقی حرکات کے گہرائیوں کو چھو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کریمہ اور کمال بلوچ سمیت نا اہل کابینہ بالکل ناکام ہوچکی ہے کیونک نہ تو یہ تنظیم کو چلا پا رہے ہیں اور نا ہی بحران کو ختم کرنے کی صلاحیت ان میں ہے ، وہ محض تنظیم کے نام کو یر غمال کرتے ہوئے اسے کٹھ پتلی کی طرح بیرونی فیصلوں پر چلارہے ہیں۔ اب جو بھی ممبر سوال کرے، ان مسائل پر بات کرے، یا احتجاجاََ مستعفی بھی ہو جائے، بجائے سنجیدگی سے ان سے بات کرنے، مسائل کو حل کرنے اور تنظیم میں واپس بلانے کے ان پر مختلف الزام لگا کر خود کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس بیان کے توسط سے بلوچ قوم کو ان مسائل کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہے ہیں جن کی بنیاد پر ہم مستعفی ہوئے ، یہ کرپشن کے الزامات بے بنیاد اور اپنے گناہوں پر جھوٹ کی ملمع سازی کرکے انہیں چھپانا ہے۔ سینٹرل کمیٹی کے مستعفی ارکان نے مزید کہا ہے کہ وہ جلد اس بابت اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز