خاران ( ہمگام نیوز) خاران میں 23 اکتوبر سے سی ٹی ڈی اور ایف سی کی جانب سے یلانزئی فیملی پر جاری پے در پے ذیادتی، جس میں یلانزئی فیملی کے فرزندوں کی گمشدگی، ان پر لگائے گئے سنگین من گھڑت الزامات اور اس کے علاوہ گھروں پر فوجی چھاپوں میں مسلسل چادر و چار دیواری کی پامالی کے رد عمل میں 5 نومبر کو لاپتہ عجاب یلانزئی کے بڑے بھائی لطف اللہ یلانزئی نے اہلیہ سمیت ان مظالم سے سے تنگ آکر اپنی ذندگیوں کا خاتمہ کیا۔
اس افسوسناک واقعے پر خاران سمیت بلوچستان بھر میں سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق کے ادارے اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس قابض اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ریاستی جبر کے خلاف احتجاجاََ خودکشی کرنے والے لطف اللہ یلانزئی کی فیملی کے مطابق فورسز کی طرف سے فیملی پر ہونے والی ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے تنگ آکر لطف اللہ نے اہلیہ سمیت ذندگی کا خاتمہ کرلیا۔
فیملی کے بیان کے مطابق اس واقعے کو چند افراد گھریلو ناچاکی کا نتیجہ قرار دے کر کچھ اور رنگ دے رہے ہیں۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ لطف اللہ ایک انتہائی باضمیر اور خوددار شخصیت کے مالک تھے۔ بھائی کی گمشدگی کے بعد سے فورسز کی ہمارے گھر پر چھاپوں اور چادر و چار دیواری کی پامالی سے تنگ آکر وہ سخت ذہنی دباؤ کا شکار تھے اور اسی وجہ سے آخر کار انہوں نے ذندگی پر موت کو ترجیح دیا، ہم غریب مگر باعزت اور شریف لوگ ہیں۔ فیملی کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ 23 اکتوبر کو شفقت یلانزئی کے اغواء کے بعد 26 اکتوبر کو جب ایف سی نے عجاب یلانزئی کو فون کرکے کیمپ بلایا تو عجاب بھی یہی سوچ کر کیمپ چلے گئے تاکہ فورسز ہمارے گھر نہ آئیں، وہ اپنی بے گناہی بتانے گئے مگر انہیں لاپتہ کیا گیا اور چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل میں ملزم قرار دیا گیا، حالانکہ ہماری فیملی ایسے اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتی اور نا ہی محمد نور مسکانزئی کے خاندان سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی ہے۔
بلوچ عوام کی طرف سے اپنے لئے شدید تنقید کا ایک نہ رکھنے والا سلسلہ دیکھ پاکستانی فورسز نے کٹھ پتلی صوبائی حکومت اور خاران پولیس کے منہ سے جھوٹ بلوا کر اپنی جنگی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کیا۔
خاران پولیس ایس پی کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق لطف اللہ یلانزئی نے اپنی بیوی کو قتل کرکے بعد میں اپنی بھی ذندگی کا خاتمہ کیا۔
خاران جیسے شہر میں جہاں ہر شخص ایک دوسرے کو ذاتی حوالے جانتا پہچانتا ہے وہاں کوئی پروپیگنڈا یا من گھڑت بیانیہ زیادہ دیر تک پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔
جیسے سی ٹی ڈی نے پہلے چار معصوم لاپتہ نوجوانوں کو زندان سے نکال کر انہیں فیک انکاؤنٹر میں شہید کرکے اسے مقابلہ قرار دیا اور بعد میں شفقت یلانزئی کو محمد نور مسکانزئی کے قتل کا مجرم قرار دے کر سورج کو انگلی سے چھپانے کی کوشش کی مگر اپنے بیانیے میں بری طرح ناکام رہا۔ سی ٹی ڈی نے اپنے تاریخی جھوٹ کے پیچھے کہیں کمزور نکتے چھوڑے۔ سی ٹی ڈی حکام کو شاید پتہ نہیں تھا کہ شفقت یلانزئی کو جن حملوں میں مورد الزام ٹھہرایا گیا یہ تمام حملے دو سے زائد تنظیموں کی جانب سے الگ اوقات میں قبول کیے جاچکے ہیں۔ آیاں کیا یہ یہی ایک شخص اتنے سارے تنظیموں کا کام کررہا تھا؟
بلکل اسی طرح لطف اللہ یلانزئی کے معاملے کو گھریلو ناچاکی قرار دے کر اب پولیس بھی جھوٹ بولنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں پہلے صاف الفاظ میں کسی عدالتی فیصلے کی طرح بتایا گیا ہے کہ لطف اللہ نے اپنی اہلیہ کا قتل کرکے بعد میں خودکشی کی ہے۔ جبکہ اس کے نیچے عوام سے مخاطب ہوکر پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ہماری تفتیش جاری ہے لہذا عوام سوشل میڈیا ذرائع پر کان نہ دھریں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر پولیس کی تفتیش ابھی تک نتیجے پر نہیں پہنچی ہے تو وہ قبل از وقت یہ اعلان کیسے کررہے ہیں کہ لطف اللہ نے اپنی بیوی کا قتل کرکے بعد میں خودکشی کی اور اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ انہوں کسی ادارے کی زیادتی سے تنگ آکر یہ سب کیا۔
لطف اللہ یلانزئی کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق لطف اللہ ایک انتہائی سلجھا ہوا اور ذہنی طور پر پرسکون اور مہروان شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کبھی کسی گھریلو جگھڑے کا شکار ہوکر ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ محرکات کچھ بھی ہوں اس معاملے کی کھڑی سیدھا ریاستی اداروں کی جبر سے جڑی ہے۔