کراچی ( ہگام نیوز ) بلوچ جبری لاپتہ افراد شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4950 دن مکمل ہوگئے ۔ اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں پروگریسوالاہنس کے مرکزی عہدیداران عابد بلوچ، زاہد بلوچ، نور مگسی اور مختلف لوگوں نے اظہارِ یکجہتی کی
احتجاجی کیمپ میں 10 فروری کو تربت سے جبری لاپتہ زمان بلوچ کے لواحقین بھی موجود رہے، جنہوں نے بعد ازاں کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس بی کیا ۔
زمان بلوچ کے لواحقین کا کہنا تھا یہ پہلی بار نہیں ہے کہ زمان کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے اس سے پہلے بھی اسے 9 جون 2020 کو چھ ماہ تک جبری لاپتہ کیا گیا تھا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کے اہلکار انکے خاندان کو مسلسل ہراساں کر رہے ہیں
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ بلوچ قوم جہاں ریاستی بربریت و تشدد کا شکار ہے وہاں آئے روز ان کی مسخ لاشوں کی برآمدگی اور جبری گمشدگی میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ تمام بلوچ پر امن جدوجہد میں عملی طور پر شریک ہوکر گلی کوچوں میں چھپنا چھوڑ دیں حالات ٹھیک ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا لوگ جان لیں کہ حالات مزید خراب ہونگے، بلوچستان کے موجودہ حالات جو ہیں پاکستانی حکمران جو کچھ بلوچوں کے ساتھ کر رہے ہیں یہ ظلم کی انتہا ہے ان مظالم اور بمباری کو خاموشی سے دیکھنے والے ہوش سے کام لیں اور اپنی اس خاموشی کو توڑ کر بلوچوں کی صفوں میں شامل ہوجائیں اور بلوچوں کے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے قافلے کو رواں دواں رکھیں کیوں کہ یہ پر امن جدوجہد پورے قوم کی ہے اگر چہ جدوجہد میں کسی کو دعوت نہیں دی جاتی بلکہ آدمی کو اس میں خود کودنا پڑتا ہے مگر تمام بلوچوں کو چاہئے کہ وہ بلوچ قومی بقا کی پر امن جدوجہد میں شریک ہوجائیں جن بلوچوں نے قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہ جائیں ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدوجہد کی بنیاد مضبوط شخصیات کے مالک ڈالتے ہیں مگر اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ تحریکیں زندہ رہتی ہیں اور پنپتی رہتی ہیں مضبوط آرگنائزیشن اور مضبوط اداروں سے کیونکہ شخصیات فرد ہوا کرتے ہیں جن پر بحران موت اور دوسری کمزوریوں کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا مگر ادارے اور تنظیمیں فکر و خیالات کا سرچشمہ ہوتے ہیں جو جدوجہد کو پروان چڑھاتے ہیں جہاں کسی شخص یا شخصیات کے جانے کے بعد اور شخص جنم لیتے ہیں۔