کوئٹہ ( ہمگام نیوز) اطلاع کے مطابق بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہدا کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5025 دن ہوگئے ـ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس سو پجار کے چیرمین زبیر بلوچ، ڈاکٹر طارق بلوچ سمیت مرد خواتین نے کیمپ اکر اظہار یکجہتی کی
وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ اب جب باشعور بلوچ قوم منظم انداز میں اپنی پرامن جنگ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے لڑ رہی ہے۔ یہ تو نعرہ باز اور گماشتہ وکیل بابو ٹیچر بابو اور اُن کے حواری اپنے وجود خطرے میں پاکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین میں پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ کبھی اتہادی بن کر بی ایس او کے خلاف بیان بازی کرکے پاکستانی خفیہ اداروں کے ساتھ اپنی وفاداریوں اور ہمدردیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کبھی یہ بلوچ پارٹیوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ کسی عام اور سطی مسلے پر غیر مشروط حمایت کا ڈھونگ رچاتے ہیں تاکہ اُکے اندھر مختلف ساتھیوں میں انتشار اور پھوٹ ڈال کر ان گھس کر انہیں بدل اور گمراہ کریں۔ لیکن انکی تمام تر مکاریان اور چالبازیاں خاک میں مل رہی ہیں۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ کے کسی مخصوص ٹولے کو ہرگز یہ اجازت نہیں دیتی کہ قابضین کے خلاف ایک پرامن جنگ جسکی قیمت بلوچ قوم نے گزشتہ 75 سالوں کی خونریزی کی صورت میں دی ہے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ شہیدوں کی خون اور امنگوں کو سستے داموں میں بیچ کر کھائے اور شہیدوں کے خون کے ساتھ غداری کرے۔ کسی مفاد پرست ٹولے کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستانی ریاست کی قصیدہ خوانی کرنے اورجب ان کو بلوچ کی طرف سے حوصلہ افزا پزیرائی نہیں تو ان کی گماشتوں نے اپنے ذاتی مجلسوں میں سرگوشی کے انداز میں لوگوں یہ بتانا شروع کیا کہ تنظیم اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ بلوچوں کی ہمدردی سمیٹنے کے لئے ان کی یہ ریشہ دوانیاں ناکام ہوئیں۔ عوامی اس ڈرامے میں اداکاری کر رہی ہیں۔ بلکہ اس سے سنگین بات یہ ہے کہ ان جیسے بہت سے افراد جو بلوچ قوم پرستی کے لبادے میں ایک قسم کے دوگانے یا مشترکہ اداکاری کر رہے ہیں ـ