کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ وومن فورم (سموراج) کے ترجمان نے کہا گزشتہ دنوں بلوچستان کے علاقے آواران میں نجمہ بلوچ ولد دل سرد گشکور غفور آباد کے اسکول ٹیچر کو جاسوسی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، انکار کی صورت میں اس کے اہل خانہ کو اغواءاور قتل کی دھمکی دی گئی تھی، نجمہ بلوچ کے اہلہخانہ کے مطابق نجمہ بلوچ نے کہا تھا کہ روز روز ہراساں کرنے سے موت بہتر ہے۔ جس کے بعد نجمہ نے خود کشی کر لی۔
ترجمان نے کہا کہ مقامی لوگوں کے مطابق خواتین کو بلا کر انہیں کیمپ میں بند کرکے کئی دنوں بعد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آواران گشکور سونڈم داد بخش بلوچ نے اس لیے خودکشی کی، اسے خواتین سمیت بار بار سیکورٹی کیمپ بلایا جاتا تھا۔ اس واقعے سے پہلے بھی “آرونی ڈن آواران” میں ایک سفید ریش بزرگ نے بھی اسی واجہ سے خودکشی کی کہ اسے گھر کی خواتین کو کیمپ لانے کے لیے کہا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ اس وقت بلوچستان انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا قبرستان بن چکا ہے حکومت اور فورسز بلوچستان میں ناکام ہوچکے ہیں نہ انہیں قانون کی پاسداری کے خالاف جانے کا خوف ہے نہ ہی بلوچ قوم کی قومی اقدار و اصول کا علم ہے۔ سیکورٹی ادارے حالات کو بہتر بنانے کے لیے مامور ہیں نہ کہ مقامی افراد کی خواتین کو اغوا، انہیں زدوکوب کرکے ہراساں اور زیادتی کے لیے۔ کسی بھی شخص کو بنا کسی ثبوت کے اغوا کرنا، یا خواتین کو کیمپ بلاکر انکی عصمت دری کرنا اور انہیں جاسوسی پر مجبور کرنا غیر قانونی عمل ہے۔
ترجمان نے کہا حکومت بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنے میں بالکل سنجیدہ نہیں، بلوچستان کی حکومت اور سیاسی قیادت بالکل ناکام ہوچکی ہے، بلوچ وومن فورم عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ بلوچستان میں خواتین پر ہونے والے ظلم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔