دمشق(ہمگام نیوز ) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق شام کے کرد مسلح گروپ نے پیر کے روز باغیوں کے زیر قبضہ ملک کے شمال میں ترکیہ کے حامی جنگجوؤں کے زیر قبضہ علاقے پر حملہ کیا ہے، جس میں 14 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے بتایا ہے کہ کرد عفرین لبریشن فورسز نے صوبہ حلب میں واقع شہر الباب کے مضافات میں متحارب گروہوں کے درمیان باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھایا اور میں نصف شب کے بعد حملہ کیا تھا۔
رصدگاہ کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے بتایا ہے کہ کرد مسلح گروپ نے توپ خانے کی مدد سے علاقے میں دراندازی کی ہے اور وہاں مختلف جنگجو گروپوں کے درمیان باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھایا ہے۔اس شب خون میں 14 ہلاکتوں کے علاوہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔تمام مہلوکین اور زخمی ترکیہ کے حامی جنگجو ہیں۔
باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں ایک مسلح دھڑے کے رہنما نے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی ہے لیکن اے ایف پی کو بتایا کہ یہ جنگجو ایک ایسی تنظیم سے رکھتے تھے جو ترکیہ کے حامی گروپوں سے منحرف ہو گئے تھے۔
عفرین لبریشن فورسز کرد جنگجوؤں پر مشتمل ہیں جنھیں کئی سال قبل ترکیہ کی فوجی کارروائی میں شام کے شمال مغربی قصبے عفرین سے زبردستی نکال باہرکیا گیا تھا اور اب وہ بنیادی طور پر شمالی صوبہ حلب ہی میں موجود ہیں۔
انقرہ نے گذشتہ برسوں شام میں پے درپے فوجی کارروائیاں کی ہیں۔ان میں زیادہ تر کرد عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن کا تعلق کردستان ورکرز پارٹی( پی کے کے) یا اس کے اتحادیوں سے سے ہے۔پی کے کے نے ترکیہ کے جنوب مشرقی علاقوں میں ریاست کے خلاف دہائیوں سے بغاوت برپا کر رکھی ہے۔
ترک فوجیوں اور ان کے اتحادی شامی جنگجوؤں نے شام کے سرحد کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے، اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن طویل عرصے سے شام کے ساتھ پوری سرحد پر 30 کلومیٹر (20 میل) عریض ’’محفوظ زون‘‘ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شام میں جنگ 2011 میں صدر بشارالاسد کے خلاف پُرامن مظاہروں کو جبروتشدد کے ذریعے دبانے کے بعد شروع ہوئی تھی اور یہ ایک مہلک تنازع میں تبدیل ہو گئی تھی۔پھر اس میں جہادی اور غیر ملکی طاقتیں بھی کود پڑی تھیں۔شام میں گذشتہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے کے دوران میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے اور ملک کے بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کو بھاری نقصان پہنچاہے۔