مرتب و ترجمعہ: آرچن بلوچ

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے تجزیاتی مضمون نگار جونہ جیریمی پوپ نے سوال اٹھایا ہے کہ “غزہ پر زمینی حملہ جمعہ سے کیوں تاخیر کا شکار ہے؟ واضع رہے کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے انخلاء کے لیے کچھ ڈیڈ لائنز دیے تھے، یہ ڈیڈ لائنز جمعے کی دوپہر تک ختم ہوچکے ہیں۔

اسرائیلی تجزہ نگار کا کہنا ہے کہ معاملہ جمعرات کو بالکل واضح نظر آیا: اسرائیلی فوج کا غزہ پر جوابی حملہ جمعہ یا ہفتہ سے شروع ہو گا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ طبل جنگ اتوار اور پیر کے صبح سویرے بجنے لگے اور فضائیہ نے کئی دنوں کی تباہ کن بمباری کے ساتھ راستہ ہموار کیا۔ تاہم، اب ہم منگل تک پہنچ چکے ہیں، اوریہ تمام نشانیاں (نفسیاتی جنگ بھی ہوسکتا ہے) اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حملہ بہت دور ہے ابھی قریب تک نشانیاں نظر نہیں آرہی۔

یونا کہتی ہیں کہ تاخیر کا سبب بننے والے کئی عوامل دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ بڑھتی ہوئی تشویش ہے کہ حزب اللہ اس لمحے کا انتظار کر رہی ہے کہ جب اسرائیلی فوج کی زیادہ تر زمینی افواج غزہ پر پیش قدمی کے لیے تیار ہوں تاکہ اسرائیل کے ساتھ شمال میں مکمل محاذ کھولا جا سکے۔ حزب اللہ نے ہفتے کی صبح جنگ کے آغاز کے بعد سے حصہ نہیں لیا ہے اور اسرائیل پر اپنے حملوں کو کافی کم حد تک رکھا ہے، مصنف کے مطابق، یہ ثابت نہیں کہ اسے روکا گیا ہے، بلکہ یہ ایک وسیع جنگی چال کا حصہ ہے۔ اسرائیلی فوج کو سیکورٹی کا جھوٹا احساس دلانے کی چال، جیسا کہ جنوب میں حماس نے حاصل کیا ہے۔ اخبار کے نقطہ نظر سے، یہ تشویش اسرائیلی فوج کو غزہ پر حملہ کرنے سے نہیں روکے گا، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے حزب اللہ کے ارادوں کے حوالے سے سگنلز کی بہتر طور پر تصدیق کے لیے حملے میں تاخیر ہوئی ہو، اور ساتھ ہی ساتھ بدترین حالات کی صورت میں شمالی افواج کو مضبوط کیا جا سکے۔

جہاں تک دوسرے عنصر کا تعلق ہے، مصنف نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج  کے اندر اور سیاسی سطح پر بھی ایک گہرائی سے سوچا جا رہا ہے کہ اسرائیلی دفائی افواج  نے کئی دہائیوں میں اس طرح کی جنگ نہیں لڑی  ہے، اور یہ کہ بغیر تیاری کے مداخلت کرنے کے لیے جلدی کرنا، انتقام کی پیاس پوری کرنا بڑی غلطی ہو سکتی ہے اس نقطہ نظر کی ایک اچھی مثال 2006 کی دوسری لبنان جنگ میں زمینی حملہ ہے، جو ایک مکمل ناکامیابی تھی، حالانکہ فضائی طاقت کامیاب حصہ تھی۔

مصنف کا خیال ہے کہ اسرائیلی افواج کیلئے اسٹریٹجک “سرپرائز” دینا ناممکن ہو گا کیونکہ حماس ہی نے اس جنگ کا آغاز کیا ہے اور چونکہ اسرائیلی فوج بھی حماس کے خلاف حکمت عملی سے سرپرائزدینا چاہتی ہے، اس لیے یہ معاملہ منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ تاخیر کے کئی دیگر عوامل ہیں جن میں شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے امریکی دباؤ، غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کے بارے میں اندرونی خدشات اور فلسطینیوں کو انخلاء کے لیے مزید وقت دینا شامل ہے۔

مصنف نے وضاحت کی ہے کہ اسرائیل کو ملنے والی زبردست عالمی حمایت کے باوجود، جس لمحے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھے گی، جو حملہ شروع ہونے کے بعد جسکا امکان بڑھ گئی ہے، امریکہ اور دنیا کی طرف سے اسے روکنے کے لیے سخت دباؤ آئے گا۔ اخبار نے متعدد ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے حماس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد غزہ کا کیا ہو گا؟؟ مصنف نے اپنے مضمون کا اختتام یہ کہہ کر کیا ہے کہ جنگ کے بعد ہی ہمیں معلوم ہو سکے گا کہ کیا یہ اضافی وقت حملے اور حملے کے بعد کا منصوبہ بنانے، زیادہ ذہین اور موثر ہونے کے لیے دانشمندی کے ساتھ صرف کیا گیا یا وقت کا ضیاع تھا۔