افغانستان میں حالیہ حملوں کی لہر کے بعد عوامی سطح پر پاکستان مخالف جذبات شدت اختیار کر گئے ہیں اور وہاں پاکستان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کی مہم شروع ہو گئی ہے۔
گذشتہ ہفتے سے ایک جانب ہزاروں افغان شہری پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب ملکی مصنوعات کی حمایت میں نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر چلانے والی اس مہم میں ایک فیس بک صارف نے دو جوتوں کی تصاویر شائع کیں۔ ان میں ایک جوتا افغانستان میں بنایا گیا تھا جب کہ دوسرا پاکستانی میں تیار کیا گیا تھا۔
اس فیس بک پیج پر دونوں جوتوں کا تقابل کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’ملکی مصنوعات زیادہ خوبصورت اور قابل اعتماد ہیں، اس لیے پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔‘
اس پوسٹ نے چند ہی گھنٹے میں 30 ہزار سے زیادہ لائک حاصل کر لیے۔ افغانستان جیسے ملک میں، جہاں انٹرنیٹ تک رسائی بہت زیادہ نہیں ہے، وہاں نیٹ صارفین کی طرف سے یہ رد عمل پاکستان مخالف جذبات کی شدت کی عکاسی کرتا ہے۔
افغان شہریوں میں پاکستان مخالف مہم میں اس وقت تیزی آئی جب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملک میں تشدد کی حالیہ لہر پر پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امن کی امید تھی لیکن پاکستان سے کابل کو جنگ کے پیغامات مل رہے ہیں۔
صدر غنی کے اس بیان کے بعد کچھ افغان خواتین نے بھی پاکستان مخالف مہم میں حصہ لے کر اپنے باورچی خانوں میں پاکستانی مصنوعات کو کوڑے میں پھینک کر ویڈیوز بنوائیں اور فیس بک پر پیغامات تحریر کیے۔
ان لوگوں میں ہزاروں افراد ایسے بھی ہیں جو کئی برس تک پاکستان میں زندگی گزار چکے ہیں، لیکن آج ان کا یہ کہنا ہے کہ جب پاکستان اُن شدت پسندوں کا مرکز ہے جو افغانستان میں معصوم شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کرتے ہیں تو پاکستان کی مخالفت اور اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں نہ کیا جائے۔
دوسری جانب افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں سول سوسائٹی کے کچھ کارکنوں نے ایک جلوس میں پاکستان پر جارحیت کا الزام لگاتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوستی اور تعلقات کو فروغ دینے کے حق میں نعرے بلند کیے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر سینکڑوں ایسی تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں جس میں صوبہ ہرات میں افغان نوجوان سو میٹر لمبے بھارتی جھنڈے کے ساتھ افغانستان کا پرچم لیے کھڑ ے ہیں۔
پاکستان مخالف جذبات یہیں ٹھنڈے نہیں ہوئے۔ گذشتہ روز کابل شہر کی متعدد مساجد کے اماموں اور سینکڑوں علما نے شاہ شہید کے علاقے میں دھماکے کی جگہ جمع ہو کر پاکستان کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔
عبد البصیر حقانی نے کابل علما کونسل کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا: ’کابل علما کی جانب سے پاکستانی ملاؤں کو ایک پیغام ہے کہ جب آپ افغانستان کی مسلمان اور مظلوم قوم کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کرتے ہیں تو آج کے بعد ہمارا فتویٰ ہے کہ پاکستان میں جہاد فرضِ عین ہے اور جو لوگ پاکستان میں جہاد کرتے ہیں ہم ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔‘
افغانستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں گذشتہ دو ہفتوں سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور پاکستان کی جانب سے طالبان کی حمایت اہم موضوعِ بحث ہے۔
افغان تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی میں اب بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، اسی لیے افغانستان میں تصور یہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کے سلسلے میں خلوصِ نیت سے اقدامات نہیں کرتا۔