کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ وطن موومنٹ بلوچستان انڈیپینڈنس موومنٹ اور بلوچ گہار موومنٹ پر مشتمل الائنس بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کئے گئے ایک بیان میں ایک لسانی پارٹی کا سربراہ اور لینڈمافیا کے سرغنہ کا کوئٹہ سے چندسیٹ جیتنے کے نشہ میں کوئٹہ پر دعویداری زمینی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے افغان اور بلوچ کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں بلکہ دونوں اقوام کا آپس میں دوستانہ تعلقات ہے محمود خان اچکزئی کی بلوچ افغان رشتہ میں دراڑ ڈالنے کی تمام سازشیں ناکام ہوں گے کچلاک اور جلو گیر کے پہاڑوں سے کچھ اضلاع جو تاریخی طور پر افغان سرزمین کا حصہ ہے اس پر بلوچ قوم کی کوئی دعویداری نہیں بلوچ وطن کی آزادی کے بعد لسانی پارٹی کے سربراہ سے نہیں بلکہ اس سلسلے میں ان کے حوالہ سے براہ راست افغانستان کے ساتھ بات ہوگی وہ افغان قوم کے مرضی و منشاء کے مطابق ہوگاوہ چائے تو آزاد بلوچستان میں الگ صوبہ بناکر رہے یا افغانستان میں شامل ہوجائے ترجمان نے کہاکہ کندھار کے ریگستانی علاقہ سے لے کر ہلمند کے کئی اضلاع اور نمروزپر مشتمل بلوچ سرزمین جو ڈیورنڈلائن کے زریعہ افغانستان میں شامل کئے گئے تھے ان علاقوں میں چالیس لاکھ بلوچوں کی آبادی ہے لیکن انہوں نے کھبی بھی افغانستان کے خلاف کسی متعصب رویہ کا اظہار نہیں کیا جبکہ افغان قوم کا رویہ بھی ان کے ساتھ دشمنانہ نہیں رہا بلکہ وہ ایک دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں ڈیورنڈ لائن اور گولڈ سمتھ لائن کے زریعہ بلوچ سرزمیں کا جو بے رحمانہ تقسیم کیا گیا اور جس طرح ایران اور پاکستان بلوچ سرزمیں پر دعویداری جتارہے ہیں افغانستان روزاول سے ایران و پاکستان کے ہوس قبضہ گیری سے دور رہا اور انہوں نے بلوچ سرزمین پر کسی قسم کا دعوی نہیں کیا چونکہ ڈیورنڈ لائن کے زریعہ افغان اور بلوچ سرزمین کا جو جغرافیائی تقسیم کیا گیا اسے نہ تو بلوچ قوم نے قبول کیا اور نہ ہی اسے افغانستان تسلیم کرتے ہیں ڈیورنڈلائن کے حوالہ سے افغان اور بلوچ قوم کا موقف کا مشترکہ ہے دونوں برادر اقوام اسے سرے سے تسلیم نہیں کرتے ہیں حال ہی میں بھی افغانستان کے جانب ڈیورنڈلائن کے حوالہ سے جو موقف سامنے آیا وہی بلوچ قوم کا موقف ہے ترجمان نے کہاکہ اگر لسانی پارٹی کے سربراہ کو برابری کا حق چاہیے تو اسلام آباد سے مانگے بلوچوں سے کیوں بلوچ قوم تو اپنی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں اور افغان قوم کے ساتھ بلوچ قوم کا کوئی جھگڑا اور مسئلہ نہیں بلوچ قوم کا نہ ان کا حق ماراہے اور نہ ہی ان کے زمین پر بلوچ کا دعوی ہے اس سے قبل سبی اور بولان پر محمود خان اچکزئی کا دعوی اور بولان تا چترال کانعرہ زمینی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش تھی انہوں نے جو نعرہ دیا وہ بلکل بے بنیاد تھے اور بلوچ و افغان کے درمیان خون خرابہ پیدا کرنے کی ایک مجرمانہ سازش تھی جبکہ کوئٹہ پر دعویداری بھی اسی سازش کا ایک کڑی ہے پشتونوں کو چاہیے کہ وہ لسانی پارٹی کے سربراہ کے سازشوں کا شکار نہ بنے بلکہ وہ اپنے اسلاف اور پشتوں لیڈر خان غفار خان اور ولی خان کے نقش قدم پر چلے لسانی پارٹی کا پشتونوں کے لئے کوئی جاندار کردار نہیں بلکہ وہ جدی پشتی بلوچ مخالف ہے وہ نہ تو پشتونوں کا ہمدرد ہے اور نہ ہی بلوچ کا دوست خواہ بلکہ وہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے ایسے نعرے دیکر افغان و بلوچ برادر اقوام کو لڑانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب نہ تو بلوچ ایسے نعروں کے پیچھے بھاگ کر اشتعال میں آئیں گے اور نہ ہی پشتوں اتنی سادہ ہے کہ وہ محمود خان کی باتوں پر کان دھریں گے بلکہ کوئٹہ کا فیصلہ آزاد بلوچستان کے بعد ہوگا اور افغان اور بلوچ علاقوں کے بارے میں بات چیت براہ راست افغانستان کے ساتھ ہوں گے لسانی پارٹی سے نہیں ترجمان نے کہاکہ لسانی پارٹی کے جانب سے براہوئی اور بلوچ کو دو الگ قومیت میں باٹننا بلوچ قومی تاریخ سے نابلدی اور گمرائی ہے براہوئی زبان بولنے والے بلوچ ہیں زبان کی بنیاد پر بلوچ قوم کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا یہ بھی برطانیہ کی ایک سازش تھی جنہوں نے بلوچ قوم کو براہوئی بلوچ میں تقسیم کیا گیا بلوچ ایک قوم اور مختلف زبانیں بولتی ہے نہ صرف براہوئی بلکہ کھیترانی اور لاسی زبانیں بھی بلوچ قوم بولتی ہے الگ الگ بولی بولنے پر انہیں تقسیم نہیں کیا جا سکتافغانستان روس اور چیناء سمیت کئی ممالک میں ایک قوم میں مختلف زبانیں رائج ہیں افغانستان میں فارسی درئی اور ازبکی زبانیں بولی جاتی ہے تو سارے افغان کہلائے جاتے ہیں ترجمان نے کہاکہ کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے لسانی پارٹی کے ساتھ اقتدار کا توازن برقرار رکھنے کے لئے جو تعلقات ہے اور جس کے بنیاد پر انہیں کھل کر بلوچ دشمنی کا جو موقع دیا گیا اقتدار کے یہ گدھی نشیں بلوچ قوم کے نمائندہ نہیں بلکہ اسلام آباد کا نمائندہ ہے لسانی پارٹی اپنی ہوش میں رہیں انہیں اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کو بلوچ و پشتوں تاریخی رشتہ میں دیوار بننے نہیں دیں گے ان کے یہ فارمولے اور منصوبہ دونوں اقوام کے ساتھ کھلی دشمنی ہے نہ تو کٹھ پتلی حکومت بلوچ قوم کا نمائندہ ہے اور نہ لسانی پارٹی پشتونوں کا نمائندہ ہے دونوں اسلام آباد کے کاسہ لیس اور دھاندلی کے پیداوار ہے بلوچستان میں تو بلوچ قوم نے تین فیصد بھی ووٹ نہیں ڈالا یہ کس بنیاد پربلوچ قوم کی نمائندگی کا دعوی کررہے ہیں ان کی نمائندگی کا پول کھولنے کے لئے بلوچ عوام کا وہ مینڈٹ کافی ہے جو آزادی کے حق میں دے کر ریاستی بیلٹ بکسوں کو خالی واپس کردیا گیا