کچھ دن پہلے افغانستان کے اندر ابھرتی ہوئی نئی دہشت گردانہ کاروائیوں پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی ایک اجلاس منعقد کی گئی تھی جس میں امریکہ، روس چین اور برطانیہ سمیت کئی معتبر ممالک کی مندوبین نے افغانستان میں بڑھتی ہوئی حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان بڑھتی دہشت گردی کے واقعات کو دنیا کے لئیے ایک حقیقی خطرہ قرار دیا۔

اقوام متحدہ کے انسداد ہشت گردی پر مامور انڈر جنرل سیکریٹری نے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ یہ دہشت گرد کئی ممالک میں پنپ رہے ہیں اور خطے اور اس سے آگے بھی دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھ رہی ہے انہوں رکن ممالک پر زور دیا کہ یہ سب کہ زمہ داری ہے کہ جنوب ایشائی ممالک میں اس نئی اٹھنے والی دہشت گردی کی لہر کا مقابلہ مل کر کیا جائے۔

اس اجلاس میں کہا گیا کہ دہشت گردی کی اس نئی لہر کی اثرات افغانستان سمیت انکے سرحدوں کے باہر بھی محسوس کئیے جاسکتے ہیں۔

متحدہ امریکہ کے اقوام متحدہ میں مندوب ڈروتھی شئیا نے کہا کہ دہشت گردوں کی پاکستان اور افغانستان میں نئی صف بندیوں اور بڑھتی ہوئی اثررسوخ کے حوالے سے ہم خاصے فکر مند ہیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں پاکستان اور انکے خفیہ اداروں پر امریکہ سمیت عالمی ممالک کی طرف سے ڈبل کراسنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں اور اس ضمن میں متعدد بار پاکستانی ریاستی اداروں پر یہ ثابت بھی کیا جاچکا ہے کہ وہ اپنے ریاستی توسیع پسندانہ مفادات کے لئیے پس پردوہ دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھانے، انہیں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے سمیت لاجسٹیکل سپورٹ اور آمد و رفت کی سہولت دیتے رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے تک پاکستانی خفیہ ادارے اور مقتدر حلقوں کے نمائندے سمجھتے رہے تھے کہ اب افغانستان ایک بار پھر انکی اتحادی بن چکی ہے لیکن طالبان کے تیور میں تبدیلی آنے کے بعد پاکستانی توقعات پر پانی پھر گیا اور انہوں نے پھر افغانستان کے اندر طالبان کی قائم کردہ عبوری حکومت کے خلاف ایک طرف سیاسی و عسکری محاذ کھول دیا اور دوسری طرف افغانستان کے اندر موجود طالبان مخالف گروہوں کی پشت پناہی شروع کردی تاکہ افغان طالبان کو بلیک میل کرکے اپنی باتیں منوائی جاسکے۔

لیکن اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی اس میٹنگ میں پاکستانی ریاست کی دہشت گردی کی سرپرستی اور اپنی مفادات سمیت پرانی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئیے انہیں ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی باز گشت نے دنیا کے سامنے پاکستانی ریاستی پالیسیوں کو طشت از بام کیا ہے، ایسے میں چائنا نے حساب برابر کرنے کے لئیے اور پاکستان پر بڑھتی دباؤ کو کم کرنے کے لئیے افغانستان میں قائم طالبان عبوری حکومت کو ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے حوالے سے حدف تنقید بنایا اور کہا کہ اس نئی ابھرتی دہشت گردی کی لہر میں دیگر تنظیموں کے علاوہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ بھی چائنیز مفادات کے خلاد افغانستان میں سرگرم ہے۔

یاد رہے کہ بلوچ آزادی پسند حلقے بلوچستان کے اندر پاکستانی قابض ریاست کی طرف سے دہشت گرد گروہوں، سماجی برائیوں میں ملوث افراد سمیت اپنی کاسہ لیسوں پر مشتمل کئی گروہوں کی پشت پناہی کا الزامات لگاتے آرہے ہیں، پاکستانی ریاست کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ جہاں انکی سیاسی و عسکری قوت کی بس نہ چلے تو کرائے کے قاتلوں کے ذریعے اپنے ایجنڈوں کو آگے لے جانے کی حربے آزماتے رہے، علاوہ ازیں بلوچستان کے طول و عرض آزادی کی جد و جہد کو بے اثر کرنے کے لئیے پاکستانی قابض عسکری و خفیہ اداروں کی طرف سے اجتماعی سزا جیسے قبیح عمل کا بھی سہارا لیا جارہا ہے۔