جمعه, می 3, 2024
Homeھمگام واچایرانی فورسز کو نشانہ بنانے والا علیحدگی پسند گروپ جیش العدل کون...

ایرانی فورسز کو نشانہ بنانے والا علیحدگی پسند گروپ جیش العدل کون ہے؟۔ تحریر: کیانی شریفی، ترجمہ: ہبیتان بلوچ

ایرانی زیر قبضہ جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والے مہلک حملوں کی زد میں ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری جیش العدل نے لی ہے، جو کہ ایک بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان سے کاروائیاں کر رہے ہیں۔

3 اپریل کو ایک درجن سے زائد عسکریت پسندوں نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں دو الگ الگ شہروں میں فوجی اور پولیس تنصیبات پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 16 ایرانی سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ یہ حملے بہت مہلک اور مربوط تھے چھ دنوں بعد اس تنظیم نے پھر بلوچستان میں ایک پولیس قافلے پر گھات لگا کر حملہ کر کے پانچ سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔

*جیش العدل کیا ہے؟*

جیش العدل یعنی “آرمی آف جسٹس” 2012 میں بلوچ عسکریت پسند گروپ جند اللہ کے جانشین کے طور پر ابھری۔ 2003 میں قائم ہونے والی جند اللہ نے ایرانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف بم حملوں اور بندوق کے ساتھ حملے کیے تھے۔ لیکن 2010 میں حکومت کے وحشیانہ کریک ڈاؤن اور جند اللہ کے رہنما عبدالملک ریکی کی گرفتاری اور پھانسی کے بعد اس گروپ کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا۔

ریکی کے بھائی عبدالرؤف نے کئی سال بعد جیش العدل قائم کیا۔ لیکن اس نے جلد ہی گروپ چھوڑ دیا اور جیش النصر نامی ایک الگ عسکریت پسند گروپ بنا لیا۔ عسکریت پسند رہنما کو 2014 میں پاکستان میں قتل کر دیا گیا تھا، بلوچ علیحدگی پسندوں نے اس کے قتل کا الزام ایران پر لگایا تھا۔ دو سال بعد جیش النصر جیش العدل میں ضم ہو گئی۔ اس وقت جیش العدل کی قیادت صلاح الدین فاروقی کر رہے ہیں اور اسے ایران اور امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ ایران کا الزام ہے کہ جیش العدل پاکستان میں موجود ہے اور اس گروپ کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کرنے پر اسلام آباد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان اس بات کی تردید کرتا ہے کہ جیش العدل اس کی سرزمین پر منظم موجودگی ہے۔

*جیش کیا چاہتا ہے؟*

جیش العدل کے جنگجو ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچوں کے حقوق کے لیے لڑ رہا ہے اور اسلامی جمہوریہ سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

بلوچ اقلیت کے لوگ کو جو شیعہ اکثریتی ایران میں سنی مسلمان ہیں کو طویل عرصے سے حکام کے ہاتھوں غیر متناسب امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے۔ مقبوضہ سیستان بلوچستان میں رہنے والے بلوچ ایران کے غریب ترین لوگ شمار ہوتا ہے۔ ایران کی 88 ملین کی آبادی کا تقریباً 5 فیصد بلوچ ہیں۔ لیکن ان کا ملک میں ہونے والی تمام پھانسیوں کا تقریباً 20 فیصد حصہ ہے۔

2022 میں ایران کو ہلا کر رکھ دینے والے ملک گیر مخالف مظاہروں کے دوران، سیستان بلوچستان کو سب سے زیادہ حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا تھا۔ اسی سال 30 ستمبر کو جسے “بلڈی فرائیڈے” کہا جاتا ہے، تقریباً 100 مظاہرین کو گولی مار دی گئی۔

حتیٰ کہ 2023 کے اوائل تک ایران کے بیشتر حصوں میں مظاہرے ختم ہو گئے، لیکن سیستان بلوچستان میں ہزاروں افراد نے علما کی حکومت کے خلاف مہینوں تک ہفتہ وار احتجاج جاری رکھا۔

دہشت گردی اور مسلح گروہوں کے ایک محقق اور تجزیہ کار ڈینیئل گاروفالو کا کہنا ہے کہ جیش العدل نے خود کو “شیعہ جبر” کے خلاف سنی بلوچ کمیونٹی کے محافظ کے طور پر پیش کیا ہے۔

*جیش العدل کو فنڈز کون دیتا ہے؟*

ایران گزشتہ کئی سالوں سے اپنے دشمنوں پر امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب سمیت جیش العدل کو مسلح کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔
ایک بلوچ صحافی اور تبصرہ نگار کیا بلوچ جو خطے میں عسکریت پسندی پر نظر رکھتی ہے کا کہنا تھا کہ بلوچ مزاحمت کو صرف امریکی ہتھیاروں یا سعودی فنڈنگ سے منسوب کرنا ایران کی دہائیوں پر محیط جابرانہ پالیسیوں اور بلوچوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے طاقت کے استعمال کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے”
بلوچ نے کہا کہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں مقیم “بااثر اور امیر بلوچ” جیش العدل کے بنیادی مالی حمایتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آمدنی کا ایک اور “کافی” ذریعہ منشیات کی اسمگلنگ ہے۔ ایران افغانستان کو یورپ سے ملانے والے افیون کی اسمگلنگ کے ایک بڑے راستے پر واقع ہے۔

2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پیچھے چھوڑے گئے ہتھیار “مختلف عسکریت پسند گروپوں کے ہاتھ میں آگئے”، بشمول جیش العدل۔ بلوچ کے مطابق علیحدگی پسند گروپ نے بلیک مارکیٹ کے ذریعے ہتھیار بھی حاصل کیے ہیں۔

گاروفالو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تہران کے الزامات کہ جیش العدل کو بیرونی ریاستوں کی حمایت حاصل ہے “انتہائی بے بنیاد” ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گروپ نے حال ہی میں اپنی ویب سائٹ اور ٹیلی گرام چینل پر کرپٹو کرنسی کی شکل میں عطیات جمع کرنے کے لیے ایک پہل شروع کی ہے۔

*کیا گروپ زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے؟*

گاروفالو نے کہا کہ جیش العدل “اپنے حملوں میں مزید ڈھٹائی اختیار کر رہی ہے” اور اس کی وجہ گروپ کی بڑھتی ہوئی بھرتی اور مقامی آبادی کی حمایت کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ راسک اور چابہار شہر میں 3 اپریل کو جیش العدل کے حملے نے ثابت کیا کہ اس کے جنگجو “خودکش مشن” پر تھے، اس حربہ کو تعلق جند اللہ نے بھی استعمال کیا ہے۔ حکام ایک وسیع اور بنجر علاقے سیستان بلوچستان میں حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ گاروفالو نے کہا، “ایران ان گروہوں پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے کیونکہ وہ انتہائی دور دراز علاقوں میں کام کرتے ہیں جہاں انہیں کافی حد تک حمایت حاصل ہے اور IRGC کا ان علاقوں پر کنٹرول بہت کم ہے،” جیش العدل تنظیم پاکستان کے ساتھ ایران کی 900 کلومیٹر طویل سرحد پر سرگرم ہے۔

واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک سینئر فیلو، فاطمہ امان نے کہا کہ “حالیہ مظاہروں پر حکومت کے ردعمل سے بڑھتی ہوئی سماجی بے اطمینانی، دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔” امان نے کہا، “عام طور پر، مرکزی حکومت کی طرف سے غربت، مایوسی اور سخت گیرسلوک کے سبب عوام کا ملیشیا گروپوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے یا ان میں شمولیت کے لیے زرخیز حالات پیدا کرتا ہے۔” وہ مزید کہتی ہیں کہ مولوی عبد الحمید، ایران کے سب سے بڑے سنی عالم اور ایک بااثر بلوچ شخصیت اور بلوچ عوام کی طرف سے “وسیع ہمدردی” رکھتے ہیں وہ “تشدد کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔”

کیا ان حملوں سے ایران پاکستان تعلقات متاثر ہوں گے؟ جنوری میں، ایران نے پاکستان کی سرحد پر جیش العدل کے ٹھکانوں پر ڈرون اور میزائل حملے کیے تھے۔ تہران نے کہا کہ یہ اقدام دسمبر اور جنوری میں سیستان بلوچستان میں گروپ کے حملوں کا بدلہ ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے ایران کے اندر موجود پاکستانی بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف فضائی حملے کئے۔ سرحد پر عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں طویل عرصے سے ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

کیا بلوچ نے کہا کہ ایران اور پاکستان میں بلوچ عسکریت پسند گروپوں کے حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد “دونوں پڑوسیوں کے درمیان عدم اعتماد کو مزید گہرا کرے گی۔”

یہ بھی پڑھیں

فیچرز