ہمگام نیوز۔ بلوچستان کی حکومت نے طالبان کی انتہا پسندانہ سوچ کی حامی ان افغان اور پاکستانی مذہبی شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے جو اپنی تقاریر کے ذریعے عام لوگوں کی طالبان میں شمولیت کی خفیہ مہم چلا رہی ہیں۔
صوبائی محکمہ داخلہ کے ذرائع نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مشتبہ مذہبی شخصیات اور علماء کی گرفتاری کے لیے پہلے مرحلے میں ان کی فہرستیں مرتب کی جائیں گی اور بعد میں سکیورٹی فورسز کو ان کی گرفتاری کے لیے کارروائی کے احکامات جاری کیے جائیں گے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کے بقول طالبان کے شدت پسندانہ ایجنڈے پرعمل پیرا مذہبی اسکالرز کے خلاف اس کارروائی کا فیصلہ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے اور حکومت امن کے قیام اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامت کر رہی ہے۔
پاکستان کے ایک اعلٰی خفیہ ادارے کے ایک سینیئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے شمال مشرقی اور جنوب مغربی علاقوں میں شدت پسند مذہبی تعلیمات کی آڑ میں لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک خفیہ مہم شروع کی گئی ہے، جس کے لیے بڑے پیمانے پر مذہبی شخصیات کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس سینیئر اہلکار نے مزید کہا، ’’قومی سلامتی کے اداروں کی بلوچستان میں تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال پر خصوصی نظر ہے۔ شدت پسندوں کا خفیہ نیٹ ورک توڑنے کے لیے سکیورٹی ادارے ہر ممکن قدم اٹھا رہے ہیں اور ایسےتمام لوگوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے جو اشتعال انگیزی، مذہبی منافرت اور انتہا پسندی میں ملوث ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ کارروائیوں کے دوران شدت پسندوں کے کئی اہم کمانڈر ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ ملک میں قومی ایکشن پلان کے نفاذ سے شدت پسندوں کی حکومت مخالف تحریک کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
بلوچ سیاسی امور کے ماہر ندیم خان کہتے ہیں کہ صوبے کے قبائلی علاقوں میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بنیادی وجہ حکومتی ڈھانچے کی کمزوریاں ہیں۔ اس لیے حکومت کو اس طرف بھی خصوصی توجہ دینا ہو گی۔
ندیم خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’حقیقتاﹰ دیکھا جائے تو شدت پسندوں نے اسلام کے تصور کو سختی سے مسخ کیا ہے۔ یہ لوگ اسلامی تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اسلامی قوانین کے نفاذ میں زمینی حقائق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ شدت پسند اسلام کی اصل تعلیمات اور ترقی پسندی کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ اسی لیے مذہبی کلچر میں کم علمی کی وجہ سے عدم برداشت اور تنازعات کی جانب جھکاؤ بڑ ھتا جا رہا ہے۔‘‘
صوبہ بلوچستان میں قو می ایکشن پلان کے تحت اب تک 1641 دینی مدارس کی چھان بین کا کام مکمل کیا جا چکا ہے اور اس حوالے سے ضلعی انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹیوں نے کوئٹہ میں صوبائی حکومت کو اپنی رپورٹیں بھی پیش کر دی ہیں۔
بلوچستان کے محکمہ انڈسٹریز میں 2441 دینی مدارس سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2010 کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ حکومت ان مدارس کو بھی قواعد و ضوابط کے تحت رجسٹرکر نے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، جنہیں مختلف وجوہات کی بناء پر اب تک رجسٹر نہیں کیا گیا۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو
‘‘