Homeآرٹیکلزبلوچ قومی تحریک میں منظم سیاسی جماعت کا فقدان ،تحریر:شولان بلوچ

بلوچ قومی تحریک میں منظم سیاسی جماعت کا فقدان ،تحریر:شولان بلوچ

ہمگام کالم

اپنے موضوع پر کچھ لکھنے سے پہلے سیاست کے اصل مفہوم پر ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں.
اردو انسائیکلوپیڈیا کے مطابق سیاست ” کسی گروہ کی بنائی گئی اس پالیسی کو کہا جا سکتا ہے۔ جس کا مقصد اپنی بالادستی کو یقینی بنانا ہو تا ہے”
سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی سسٹم پر مکمل اعتماد ختم ہونے کے بعد کوئی گروہ سیاسی پروگرام ترتیب دیکر اقتدار اعلیٰ کو اپنی کنٹرول میں لانے کیلئے سیاسی عمل کو آگے بڑھاتا ہے، سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے کئی طرح کے طریقے استعمال میں لائے جاتے ہیں کچھ کا ماننا ہوتا ہے کہ سسٹم کے اندر رہ کر معمولی تبدیلی لاکر اٹھنے والی بے چینی کو ختم کیا جاسکتا ہے اور کچھ قوتیں سسٹم سے مکمل بددلی کا شکار ہو کر نئے سرے سے سسٹم بنانے کا سوچتے ہیں۔
چونکہ سیاست کے کئی اقسام ہیں مگر میں یہاں دو اقسام کو زیر بحث لاؤں گا کیونکہ بچپن سے لڑکپن تک ان ہی دو اقسام کو سنتے آ رہے ہیں،
1:پارلیمانی سیاست
اور
2:غیر پارلیمانی سیاست
پارلیمانی سیاست ریاست کے فریم ورک میں رہ کر اقتدار کے اصول کیلئے کیا جاتا ہے تاکہ ایوانوں میں رہ کر اپنے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے. بلوچستان میں پارلیمانی سیاست سے منسلک پارٹیوں کے لسٹ میں بلوچستان نیشنل پارٹی، مینگل گروپ، عوامی گروپ، محمود خان اچکزئی گروپ، نومولود باپ پارٹی سر فہرست ہیں جو بلوچ اور پشتون حق و حقوق کی بات کرتے ہیں اور اپنے ان تمام مسائل کا حل پاکستانی پارلیمنٹ میں تلاش کرتے ہیں. اور اس وقت بلوچستان میں باپ پارٹی اقتدار پر براجمان ہے.
دوسری جانب غیر پارلیمانی سیاست
بلوچستان میں موجود غیر پارلیمانی سیاست سے وابستہ قوم پرستوں کا ماننا ہے کہ قابض پاکستان کے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کوئی بھی مسئلہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا مطلب حل نہیں ہو سکتا، ان کا ماننا ہے کہ بلوچستان پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا تھا اور جبری قبضے کو ختم کرنے کیلئے قبضہ گیر کو سیاسی اور عسکری دونوں حوالوں سے اپاہج کرنا محکوم اور پسے ہوئے عوام کی ذمہ داری ہے.
بلوچستان میں غیر پارلیمانی سیاست سے وابستہ جماعتوں میں بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ ریپبلکن پارٹی، اور حال ہی میں منظر عام پر آنے والی فری بلوچستان موومنٹ سر فہرست ہیں۔

قومی تحریکوں میں کوئی بھی ذی الشعور سیاسی تنظیم کے کردار کو نظرانداز نہیں کر سکتا، بغیر منظم سیاسی قوت کے مقصد کو حاصل کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس طرح آج بلوچ قومی تحریک کر رہا ہے، نام کے سیاسی پارٹیاں گزشتہ کئی سالوں سے وجود رکھتے ہیں مگر ان میں وہ کوالٹی نہیں جو بلوچ تحریک کو صحیح ٹریک پر لا کھڑا کرسکیں۔

جس طرح حال ہی میں ہمگام نیوز میڈیا کو نامور بلوچ اسکالر اور لکھاری واجہ صورت خان مری نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے بارہا کہا کہ جب تک ایک منظم سیاسی تنظیم دستیاب نہیں ہو گا یوں ہی انارکی، انتشار، نرگسیت، بد نظمی، تقسیم در تقسیم، کا بلوچ شکار ہوتے رہیں گے، اگر غیر جانبدارانہ تحقیقات کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گی کہ اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے اداروں کے نام پر بلوچ تحریک کو پہلے طبقاتی تقسیم کا شکار کیا گیا اور بعد میں بلوچ قومی قوتوں کو تقسیم در تقسیم کیا گیا اور انارکی پیدا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور یہ چیزیں ہنوز جاری ہیں، مڈل کلاس کا لبادہ اوڑھ کر قومی تحریک میں سرگرمِ عمل لیڈران پر کیچڑ اچھال کر قومی موومنٹ کو دوسروں کے اشاروں پر یرغمال بنانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔

واجہ صورت خان کے باتوں سے یہ بات واضع ہو جاتا ہے کہ اس وقت تک بلوچ قومی لیڈر شپ سیاسی تنظیم بنانے میں مکمل ناکام رہے ہیں اور بلوچ قومی تحریک میں سیاسی خلا دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔

اگر دنیا کے باقی تحریکوں پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو ہمیں باقی تحریکوں میں منظم اور فعال سیاسی قوتیں نظر آئینگے، سب سے بڑی مثال کردوں کی موجودہ جدوجہد ہے جو اقوام عالم کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے، ان کا قومی مسئلہ امریکی ایوانوں میں گونج رہی ہے.
ستر سالہ طویل غلامی میں بھی بلوچ ایک منظم سیاسی جماعت بنانے میں مکمل ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے آج بلوچ قوم ایک انتشاری کیفیت سے دوچار ہے۔

موجود غیر پارلیمانی سیاسی پارٹیاں مثلاً بلوچ نیشنل موومنٹ جس کی بنیاد دو ہزار چار کو چیرمین غلام محمد رکھ چکے تھے اور بلوچ ریپبلکن پارٹی جس کی بنیاد دو ہزار چھ کے بعد رکھی دی گئی تھی اگر یہ تنظیمیں منظم سیاسی پارٹی کے قالب میں مکمل اترتے تو شاید بلوچ تحریک آزادی آج اس بے چینی کی حالت میں نہیں ہوتا۔

چونکہ فری بلوچستان موومنٹ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہوئی سیاسی جماعت ہے اور اسکی قیادت بلوچ جلاوطن رہنما حیربیار مری کر رہے ہیں جو موجودہ بلوچ انسرجنسی کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں، اور بہت سے سیاسی مسائل کا عملی تجربہ کر چکے ہیں لہذا ان کو چاہیے کہ اپنے دیگر سیاسی دوستوں سے مل کر فری بلوچستان موومنٹ کو ایک ایسے سیاسی قوت کی شکل میں دنیا کے سامنے متعارف کرائیں کہ دنیا بلوچستان کے قومی مسئلے کو سنجیدگی سے لے اپنے کردار کو ادا کر سکے۔

Exit mobile version