Homeآرٹیکلزسوشل میڈیااوربلوچ قومی تحریک:تحریر گدان بلوچ

سوشل میڈیااوربلوچ قومی تحریک:تحریر گدان بلوچ

سوشل میڈیا کے اصطلاح کا استعمال سنہ 1999 میں سامنے آیااور اس اصطلاح کو پیش کرنے والے دعوے دار بھی بہت ہیں ۔سوشل میڈیا سے مرادانٹرنیٹ بلاگز،سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اوردیگر موبائل ایپس جو انٹرنیٹ سے منسلک ہوں شامل ہیں۔مختلف شعبوں سے منسلک افراد اپنے کام کے نوعیت کے مطابق سوشل میڈیاکا کوئی مختلف ذریعہ منتخب کرتے ہیں مثلاََ ایک لکھاری اپنے تحریریوں کیلئے بلاگ کا استعمال کرتا ہے اور انٹرنیٹ بلاگز لکھتا ہے یا دوستوں اور اپنے گرد کے مخصوص حلقے سے رابطے میں رہنے کے لیئے فیس بک کا استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح مشہور اشخاص عوام کے ساتھ رابطہ رکھنے کے لیئے ٹویٹر کا استعمال کرتے ہیں اور پروفیشنل لوگ اپنے شعبے کے افراد کے ساتھ تعلق رکھنے کیلئے لنکڈ ان کا استعمال کرتے ہیں ،یعنی سوشل میڈیا کے مختلف آلات یا چہروں کا استعمال مختلف مقاصد کے لیئے ہوتا ہے۔ یعنی سوشل میڈیا نے پہلی بار انسانی رابطوں کو ایک محدود حلقے سے نکال کر عالمی اور قومی کردیا اور تاریخ میں پہلی بار خبر عوام کے ہاتھ میںآگئی اور اسی طرح یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ ایک عام انسان اپنا رائے اتنی آسانی سے اتنے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتا ہے اور تبدیلی لاسکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ فیس بک پر موجود لوگوں کو اگر ایک ملک کی آبادی کے مطابق جانچا جائے تو یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے اثر انگیزی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کے مشہور گلوکار جسٹن بیبر، کیٹی پیری اور لیڈی گاگا کے ٹوئٹر فالوورز جرمنی، ترکی، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن، مصر اور کینیڈا کی آبادی سے زیادہ ہیں یعنی جب ان اشخاص کی آواز کسی ملک کے صدر سے بھی زیادہ سنی جاتی ہے۔اتنی بڑی آبادی کی موجودگی میں سوشل میڈیا کاروباری افراد اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو بہت سے مواقع فراہم کرتا ہے کہ وہ یہاں پہ اپنے پروڈکٹ کے اشتہاروں کی تشہیر کریں ۔ سوشل میڈیا میں دیگر چیزوں سے زیادہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی جانب لوگوں کا رجحان زیادہ ہے جن میں فیس بک ،ٹویٹر ،انسٹاگرام وغیرہ ہیں۔فیس بک کے بانی کے مطابق ہر ماہ 1.39 بلین لوگ فیس بک سے جڑتے ہیں اور 300 ملین لوگ انسٹاگرام سے۔اتنی بڑی آبادی کی موجودگی میں اپنی آواز پہنچانا آسان بلکہ تیز بھی ہوگیا ہے مثال کے طور پہ اگر ٹیوٹر پہ آپکے 100 فالورز ہیں اور آپکے ٹویٹ کو کوئی ایسا شخص ریٹویٹ یعنی شئیر کرتا ہے جس کے فالور ہزار ہوں تو ایک منٹ کے اندرآپکے الفاظ 1100 لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔یقیناََ اس رفتار کو دیکھ کے بہت سے لوگ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کو ترجیح دینے لگیں ہیں جہاں آپکو دنیا پھر کی معلومات منٹو ں میں ملتی ہے وہ بھی بغیر کسی توڑ مروڑ کے۔سوشل میڈیا شروعاتی دنوں میں محض شغل کا سامان تھا مگر اسکی مقبولیت کے بعد آہستہ آہستہ کاروبار کا سامان بھی بن گیا مگر جب عام لوگ اور سیاسی کارکنان و پارٹیاں سوشل میڈیا سے جڑنے لگے تو پھر سوشل میڈیا نے آنے ولے دنوں میں ایک ایسا کردار نبھایا جس کی امید شاید ہی کسی کو تھا ، وہ کردار اپنے انقلابی نظریات کی پرچار تھی۔جب عام عوام سوشل میڈیا کے ذریعے سے آپس میں جڑنے لگے تو فطری طور پر ایک عام انسان کے مسائل بھی زیر بحث آئے ، ان مسائل پر ہم فکر اکھٹا ہوتے رہے ، سیاسی نظریات کا تبادلہ ہوتا گیا اور وہ عوامی جذبات و خیالات جو سرکاری میڈیا دباتے آرہی تھی وہ سوشل میڈیا کے توسط سے اپنا اظہار کرتے گئے اور ان حقائق کے بنیاد پر تحریکیں شروع ہوئی ۔
*۔تیونیس کا انقلاب
مشرق وسطی میں موجود عرب ملک تیونیس پر 1987 سے صدر زین العابدین قابض تھے جو کامیابی سے اپنے خلاف ہر احتجاج کو طاقت سے دباتا آرہا تھا، حکومت مخالف کوئی بھی تحریک چھوٹی یا بڑی 2010 سے پہلے تک جڑ پکڑ نہیں پائی تھی نا ہی میڈیا انھیں کوریج دیتا تھا مگر سنہ2010 میں ایک غریب عرب سبزی فروش کی خود سوزی نے ہنگامہ برپا کردیا ،محمد بو عزیزی اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا اور ہاتھ گاڈی چلاکر اس پر سبزیاں بیچتا تھا مگر ایک دن پولیس نے اسکی ہاتھ گاڑی ضبط کردی ،اپنے دفاع کے لیئے بار بار پولیس تھانہ جانے پر اسے گالیاں سننے کو ملتی ۔جب اس کے انصاف کی امیدوں نے دم توڑ دیا تو بو عزیزی نے بنا کسی کو بتائے پولیس ہیڈ کواٹر کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر خود سوزی کردی۔اس عمل کے نتیجے میں ملک بھر میں حکومت مخالف تحریک برپا ہوا عوام سڑکوں پر نکل آئی اور سول نافرمانی شروع ہوگئی،پچھلے احتجاجوں کے برعکس اس بار تیونس کا عوام سوشل میڈیا کے زریعے ایک دوسرے سے رابطے میں تھا اور مین اسٹریم میڈیا میں کوریج نہ ہونے کے باوجود احتجاج کی ہر تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیاکے فیس بک اور یو ٹیوب پہ پھیل رہی تھی پوری دنیا احتجاجوں پر حکومتی ظلم کی مذمت کرنے لگا ۔اس انقلاب کو سوشل میڈیا نے مضبوطی دی اور صدر زین العابدین کو جھکنے پر مجبور کردیا بالآخر صدر نے 2011 میں استعفیٰ دے دیا ۔تیونس کاانقلاب سوشل میڈیا کی مدد لینے والا پہلا انقلاب تھا اسکے بعد انقلابات کا جو سلسلہ شروع ہوا اسے آج ہم عرب بہار کے نام سے جانتے ہیں۔
*۔انقلابِ مصر
عرب بہار کی کڑ ی میں دوسرا انقلاب 2011 میں مصر کا تھا جہاں صدر حسنی مبارک دہائیوں سے قابض تھا ۔حسنی مبارک بھی دیگر آمروں کی طرح اظہار رائے پر قدغن لگاتا آرہا تھا اور ہر طرف طاقت کا استعمال کرتاتھا۔اسی طرح طاقت کے استعمال کا شکار ایک عام مصری شہری خالد سعید بنا جسے اسکندریہ کی پولیس نے ازیت ناک موت دی تھی۔مگر ماضی کی طرح اس با ر یہ قتل چھپ نہ پائی دبئی میں مقیم مصری شہری وایل غنیم کی نظر سے جب خالد سعید کی مسخ لاش کی تصویر گزری تو اس نے اپنے غصے کے اظہار کے لیئے فیس بک پر ایک صفحہ بناڈالا جسکا نام اسنے ہم سب خالد سعید ہیں رکھا اور لکھا کہ آج خالد قتل ہوا ہے کل ہم سب کی باری ہے۔دیکھتے ہیں دیکھتے اس صفحے کو پسند کرنے والوں کی آبادی بڑتھی گئی اور ایک دن میں 350 اور تین مہینے میں 2500000 ہوگئی۔غنیم نے سوشل میڈیا کی توسط سے لوگوں کو منظم کیا اور احتجاجوں کے لیئے وقت اور جگہ کا تعین کیا۔
لوگ مشہور زمانہ تحریر اسکوئر پر جمع ہوئے ،شروع میں لوگ جمع ہوکے صرف خالد سعید کی یاد میں خاموشی اختیار کرتے اور مارچ کرتے ، مصر میں وایل غنیم کے حکومتی اداروں کے اغوا کے بعد احتجاجوں میں شدت آئی اور حکومت کو مجبوراغنیم کو منظر عام پرلانا پڑا۔اب کی بار احتجاجوں کا سلسلہ حسنی مبارک کے استعفے تک چلا ۔حکومت کے حامیوں اور مخالفوں میں تصادم ہوتے رہے اور تیونس کی طرح یہاں بھی سوشل میڈیا ہی مظلوم عوام اور انقلاب کی آواز بنی۔بالآخر صدرحسنی مبارک نے 10 فروری 2011 کو استعفیٰ دے دیا۔ سوشل میڈیا کے توسط سے پذیرائی حاصل کرنے والا یہ عرب بہار آج بیشتر عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، لیبیا، شام، عراق، بحرین،یمن اور لبنان سب کے سب عوامی تحریکوں میں گھری ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت پوری دنیا نے تسلیم کی ہے اور ہر مظلوم قوم نے اسے اپنی آواز پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے،کرد وں کی تحریک ہو یا تاملوں کی،باسق کی ہو یا تبتیوں کی سب اپنی حالتِ زار سوشل میڈیا میں پیش کر رہے ہیں اور دنیا کو قابض ممالک کے ظلم و جبر کی تصاویر دکھا رہے ہیں اور ناانصافیوں کے داستان لکھ رہے ہیں۔جیسے دنیا کی تمام مظلوم اقوام سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہے اپنی آواز پہنچانے کے لیئے اسی طرح بلوچ قوم بھی سوشل میڈیا پہ متحرک ہے۔ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس آج ہمیں سماجی رابطوں کی ہر ویب سائٹ پہ نظر آتے ہیں خواہ وہ فیس بک ہو،ٹویٹر ہو،یوٹیوب ہو یا پھر انسٹاگرام ۔بلوچ ایکٹیوسٹس منظم انداز سے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں رونما ہونے والے ہر واقعے کو دنیا کے سامنے رکھتے آرہے ہیں،آج اگر مشکے کے دیہاتوں میں آپریشن ہوتا ہے تو بلوچ ایکٹویسٹس آپریشن کے بعد کی تباہ کاریوں کی تصویر سوشل میڈیا میں پھیلا دیتی ہیں اور دنیا کو دکھاتے ہیں کہ کس طرح قابض پاکستان غریب بلوچوں کے گھروں کو مسمار کر رہا ہے۔بلوچ ایکٹوٹس نے صرف فیس بک اور ٹویٹر پہ اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ بہت سے بہترین نیوز ویب سائٹس بھی چلا رہے ہیں جن کے قارئین میں ملکی اور غیر ملکیوں کی کثیرتعداد شامل ہے قابل ذکر ان نیوز ویب سائٹس میں ہمگام نیوز اور بلوچ ورنا نیوز ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پہ بلوچستان میں رونما ہونے والے خبروں کے ساتھ ساتھ تجزیہ اور تبصرے بھی شائع ہوتے ہیں۔اسی طرح بلوچ مسنگ پرسنز کی ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں بلوچ لاپتہ افراد کی پوری معلومات درج ہیں کہ کب کسے کس وقت لاپتہ کیا گیا اور ان معلوما ت تک پوری دنیا کو رسائی حاصل ہے۔ان اہم ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ ہمیں بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس ایسوسی ایشن کا ایک بلاگ بھی ملتا ہے جہاں بلوچ ایکٹوسٹس مختلف مہموں کے حوالے سے عنوان اور وقت شائع کرتے ہیں جن کومدنظر رکھ کر سوشل میڈیا پہ موجود بلوچ ٹویٹر پہ ایک مخصوص ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کرتے ہیں۔جیسا کہ حال ہی میں چین کی بلوچ سرزمیں پہ موجود گی کے خلاف ٹویٹر کیمپین چلا جس کی ٹوٹل ریچھ یعنی احتجاج کو دیکھنے والوں کی تعداد ڈیڈھ لاکھ تھی۔ بلوچ قومی تحریک میں سوشل میڈیا کا استعمال میری نظر میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں نا صرف دشمنوں کے ظلم و جبر کو دنیا کے سامنے رکھا جا رہا ہے بلکہ بہت سے بلوچ اندرونی خامیوں کو بھی بلوچ عوام کے سامنے رکھ رہی ہے۔وہ اس طرح کے بلوچ تحریک کے عروج کے ساتھ ہی ساتھ ردانقلابی بھی زور پکڑتے جارہے تھے اور تحریک کو مختلف گروہوں میں بانٹ رہے تھے۔پس پشت ہونے والے اختلافات قوم کی نظروں سے اوجھل تھے اور ماضی میں مضبوط بلوچ قومی تحریک ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی تھی جس کی وجہ ایک عام بلوچ کو تب تک پتہ نہ چل سکی جب تک بلوچ دانشوروں و جہدکاروں نے اس بات کو فرض نہیں سمجھا کہ اندرونی حالات سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اس سلسلے میں انھوں نے سب سے موزوں میڈیا کا انتخاب کیا جو کہ سوشل میڈیا تھی اور یہاں پہلے سے بلوچ آزادی کے جہد سے تعلق رکھنے والے ایکٹیوسٹس کی بھی کثیر آبادی موجود تھی۔2013 میں اندرونی خامیوں کے اوپر کالم لکھے جانے لگے اور مختصر مضامین بھی بلاگز اور فیس بک پر شئیر کیئے جانے لگے جہاں مختلف رد انقلابیوں کے اصلیت واضح کی گئی اور قوم کو آگاہ کیا گیا کے ایسے اعمال جو بظاہر ہمیں انقلابی لگتے ہیں مگر حقیقت میں ہمیں مزید غلامی کے زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بلوچ تحریک میں ان رفارمرز یعنی اصلاح لانے والوں نے بھی سوشل میڈیا کی اہمیت کو جان کر یہاں آئے روز تنقیدی مضامین شائع کر رہے ہیں جن کی وجہ صرف تین سالوں میں بلوچ قومی تحریک میں کافی تبدیلیاں رونماہوئے ہیں ۔عوامی حلقوں کی رائے میں ان تنقیدی مضامین کی وجہ سے انھیں بہت سے لوگوں کی اصلیت اور زہنیت پتا چلی ہے جنھیں وہ انقلابی ہیرو سمجھتے تھے۔یہ تنقیدی مضامین سوشل میڈیا کی توسط سے میرے لکھنے کے دوران تک جاری ہیں۔اس حوالے بہت سے بلوچ لیڈران اور پارٹیوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر اندرونی معاملات کو لانا نقصان کا باعث بن جاتا ہے جن میں قابلِ ذکر ڈاکٹر اللہ نظر تھے لیکن اب خیال کیا جارہا ہے کہ انکے یہ خدشات محض اسلئے تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان سے متعلق بہت سے منفی پہلو بلوچ عوام کے سامنے آشکار ہوجائیں کیونکہ سوشل میڈیا پر غداری سے نتھی کرنے والے ڈاکٹر اللہ نظر آج اس جدید دور کے تقاضوں کے آگے مجبور ہوکر خود بھی ٹوئٹر کا استعمال کررہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں حیربیار مری پر تنقید بھی کی تھی یعنی وہ سوشل میڈیا بھی استعمال کررہے ہیں اور اس پر تنقید بھی اسلئے انکے خدشات کو حقیقی نہیں بلکہ ذاتی مفاد سے نتھی کیا جارہا ہے ، دوسری طرف جو بلوچ سیاسی کارکنان سوشل میڈیا پر تنقید کرتے آئیں ہیں انکا یہ موقف رہا ہے کہ بلوچ مسلح و غیر مسلح تنظیموں میں گروہیت اور انفرادیت حد درجہ سرایت کرچکی ہے اور اب انکے اس طرز فکر سے قومی تحریک تقسیم اور گروہیت کا شکار ہوکر نقصان کی جانب بڑھ رہا ہے بارہا نشاندہی کے باوجود وہ اپنے ان منفی رجحانات کو روکنے پر راضی نہیں ہوئے اسلئے حقائق بلوچ عوام کے سامنے پیش کرکے انکے دباو اور رائے سے انہیں روکا جائے یا اگر کوئی قومی نقصان ہوتا ہے تو ذمہ داران آج سے ہی ظاھر ہوں ۔ دشمن کے بربریت کی وجہ سے نا بلوچ عوام سے اتنے وسیع پیمانے پر میل جول ہوسکتی ہے اور نا ہی جلسے و کارنر میٹنگ ہوسکتے ہیں اسلئے سب سے محفوظ ، موثر اور فوری ذریعہ سوشل میڈیا ہے جس کے توسط سے عوام کو ان مسائل کے بابت آگاہی فراہم کی جاتی ہے اور آج وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں کیونکہ بلوچ سیاست سے دلچسپی لینے والا ہر بلوچ آج تمام حقائق سے آشنا ہے ۔ جہاں اس سوشل میڈیا نے عرب بہار کی صورت میں ایک انقلاب لے آیا وہیں یہی سوشل میڈیا بلوچ سیاست کے اندر بھی ایک انقلاب لارہی ہے ، یقیناًروایتی ذہنیت کے حامل افراد اس ذریعے کو تسلیم کرنے میں ہچکچا رہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے یا تو آپ ترقی کے ساتھ چلتے ہیں یا پھر ترقی آپ کو کچل کر آگے بڑھتا ہے۔

Exit mobile version