Homeآرٹیکلزمادرِ وطن بلوچستان کا خونِ آشام داستان۔ تحریر: بختاور بلوچ

مادرِ وطن بلوچستان کا خونِ آشام داستان۔ تحریر: بختاور بلوچ

گولیوں کی بارش!

لاٹھیوں کی برسات!
ٹپکتے خون!
گرتی لاشیں!
اشکبار آنکھیں!
درد کی چیخیں!
زخموں کی کہانی!

میرا سر سبز و شاداب بلوچستان لہو لہان ہے۔ ہر طرف خون ہی خون بہہ رہا ہے،گولیوں سے چھلنی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ ماؤں کی فریاد اور بہنوں کی صدائیں بلوچستان کے مضبوط پہاڑوںکو ریزہ ریزہ کر رہی ہیں۔ گولیوں کے چلنے کی وحشت بھری آواز میرے بھائیوں کا گلا گھونٹ کر سانسیں روک رہی ہیں۔ راستے پہ کھڑے وحشی لاٹھیاں مار کر میرے وطن کے بہادروں کو موت سے ہمکنار کر رہی ہیں۔ وہ تنگ،سیاہ و تاریک زندان میرے وطن کے شیدائیوں کی آزادی ہڑپ رہی ہے۔ بچوں سے انکا بچپنا چھین کر سڑکوں پر اپنے سر کے ساہے کی جستجو میں درد بدر بھٹکنے پر مجبور کر کیا جارہاہے۔

ماں باپ لرزتے،گرتے اپنے کمزور ہڑیوں کا سہارا لیے بھیڑ میں اپنے لال کی سلامتی کے لیے نالے بلند کر رہی ہیں پر انکے سامنے دیگر ماؤں کے لخت جگر وں کی خون سے لت پت لاش پھینکی جا رہی ہیں۔ کالے کوٹھریوں اور زندانوں کی قبر نما تاریک سے اپنے محافظوں کو بچانے نکلی وہ بےبس بہنیں شدید زخمی حالت میں آج خود سیاہ زندانوں کی نذر ہو گئی ہیں۔ وطن کے دیوانے جو بلند آواز لے کر گھر سے حق کے خاطر نکلے انکی کفن میں لپٹی لاش گھر کو ویران کر گئی۔

آزادی کا شمع جلانے والے وہ روشن چراغ آج بند کوٹھیوں میں بجھ سے گئے ہیں۔ وہ ہاتھ جو کبھی فزاہوں میں آزاد لہراتے تھے اُن نازک ہاتھوں کو ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں۔ وہ بہنیں جو ہماری عزت ہیں سرِبازار میں انکا دوپٹہ کھینچ کر ان ہی کی عزتیں نیلام کی گئیں۔ ہم پر ظلم و جبر کرنے کے لیے ہر نئے حربے استعمال کیے گئے۔ ہم پر لاٹھیاں برسائی گئیں،گولیاں چلائی گئیںاور ہمیں تاریکیوں کے نذر کر دیاگیا۔ میرے نوجوانوں کو اٹھا لیا گیا،انہیں شہید کردیا گیا۔

11 اگست 1947 شاید ہم بلوچوں کے لیے ہی آزادی کا سوغات لے آئی تھی جب ہر طرف بلوچستان کا آزاد بیرک فضاؤں میں آزاد لہرا رہا تھا کہ بچہ بچہ کہہ رہا تھا ہم غلام نہیں ہم آزاد ہیں۔ہم آزاد ہیں اور ہم آزاد ہیں پر شاید ہماری وہ آزادی،وہ خودمختاری،امن،ہماری خوشی صرف کچھ عرصوں تک کے لیے تھا۔ شاید کچھ لمحوں کے لیے ماں کا لخت جگر اس کے سینے سے لگا رہا، باپ کا سہارا کچھ عرصوں تک ہی کندھا بنارہا، بہن صرف اسی لمحے تک تحفظ محسوس کرتی رہی، شاید کچھ عرصے کے لیے بلوچوں کے گھر میں خوشی اور قہقہے کی گونج ہوتی تھی۔

شاید ہماری آزادی صرف آٹھ مہینے کی ہی تھی کہ 27 مارچ 1948 کو ایک بار پھر سے ہر گھر میں قیامت سی چھا گئی،ہر طرف ماتم کا سما ںتھا اور غلامی کا پندھا پھر سے گلے میں بند گیا۔ پھر وہی زنجیریں،وہی قید خانے اور وہی غلامی۔ جس آزادی کے لیے لاکھوں کروڑوں نے قربانیاں دیں،لاکھوں خواتین بیوہ،بچے یتیم اور زمیندار بےگھر ہوئے وہ آزادی صحرا کے سنگریزوں اور خزاں زدہ پیڑ کے پتوں کی طرح درہم برہم ہوگیا، دو پل میں ہی ہم سے ہماری آزادی چھین لی گئی۔

سنا ہے آزادی کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔ آزادی خون مانگتی ہے۔ آزادی بغاوت چاہتی ہے تو بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے سالوں سے نہیں،دہائیوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے قمر بستہ ہے۔ ہر ظالم کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اپنا خون بہایا۔

جب بلوچ قوم فارس کے چنگل میں تھا تو تب بھی قربانیاں دیں۔1638 تک مغل کے قبضے میں تھا تو تب بھی خون کے دریا میں ڈھوبتے گئے۔جب برطانیہ نے بلوچ سرزمین پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے 13 نومبر 1839 میں شال سے اپنا سامراجی لشکر قلات کی جانب روانہ کیا تو تب بھی خان آف قلات میر مہراب خان نے غلامی قبول کرنے کے بجائے اپنے 300 لشکر سمیت میدانِ جنگ میں تاجِ شہادت پائی۔ 2000 سے زائد بلوچ نوجوان زندانوں کے نذرہو گئے۔ ہزاروں کے گھر اجڑ گئے۔

سامراج برطانیہ کی تسلط سے 11 اگست کو آزاد ہونے والے بد قسمت بلوچ پھر سے غلامی کا دھبہ لیے ریاست پاکستان کے زیرِ تسلط رہے۔

اس غیر آئینی اور غیر قانونی قبضے کے خلاف جب 1948 کو شہزادہ عبدالکریم اور 1958 کو نوروز خان اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں کا رخ کرگئے اور بغاوت مول لی تو انہیں خدا،مذہب،اسلام اور قرآن کے بے بنیاد واسطے اور قسمیں دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا پر اس خالق اور اس کے آخری و مقدس کتاب کی توعین کرتے ہوئے ظالم ریاست نے انہیں سیاہ زندانوں کی نذر کرکے سولی پر لٹکا دیا،انہیں پھانسیاں دی گئیں، شہید کیا گیا۔

6 فروری 1976 میں پہلی بار شہید اسد مینگل اور احمد شاہ کرد کو لاپتہ کرکے بلوچوں پر ظلم ڈھانے کے لیے ایک اور غیر آئینی پالیسی جبری گمشدگی کا آغاز کیا جس کی تحت بلوچوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ماورائے عدالت میں قتل کرکے انکی مختل شدہ لاشیں اجتماعی قبروں میں پھینک دیا گیا۔

بی بی سی نیوز 2016 کے مطابق فیڈرل منسٹری آف یومن رائٹس کا کہنا ہے کہ 2011 سے بلوچستان میں 936 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ اور بیشتر لاشیں شال،خضدار، قلات اور مکران میں پھینکی گئی ہیں جس میں میں 2009 کو لاپتہ کردہ بلوچ،جلیل ریکی کی 4 گولیوں سے چھلنی لاش بھی شامل تھی۔

2014 خضدار کے علاقے توتک میں تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جن میں 200 سے زائد بلوچوں کی مسخ لاشیں ملیں۔ اسی طرح 2018 میں پنجگور میں بھی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔

مزید انسانی حقوق کونسل بلوچستان (HRBC) اور فرانس اور سویڈن کے این جی او کے 2019 کے رپورٹ کے مطابق سال 2019 کے صرف چھ مہینوں میں بلوچستان کے چھ ضلعوں میں 371 شہری جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں اور 158 کی مسخ لاشیں پھینکی گئی ہیں۔

اور کیسے بیان نہ کروں اس ماں کا درد جس کے کمسن بچوں کو بلوچستان کے علاقے ہوشاب میں 2022 کو بم سے اُڈا دیا گیا۔ وہ پانچ اور چھ سال کے بچے شاید یہ بھی نہ جانتے ہو کہ ہم غلام ہیں ان پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ دہشتگرد ہیں، وہ ڈیتھ اسکوڈز ہیں۔

اسی کے ساتھ ہی وہ خوبصورت بچہ 2022 ہی میں جس کے سینے پہ گولیاں چلا کر لہو سے لت پت لاش پھینکی دی گئی۔ کیا اس کا تعلق بھی دہشت گرد تنظیموں سے تھا؟ کیا وہ ریاست کے خلاف یا مخالف تنظیموں کے ساتھ مل کر جدوجہد کر رہا تھا؟ یا وہ بھی ڈیتھ اسکوڈ ہی تھا؟

اور اب 28 جولائی 2024 کو بی وائی سی کی قیادت میں گوادر میں راجی مچی کی گئی جس میں بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدہ کردیا گیا۔ خواتین،بچے اور بزرگوں کو ہراساں کیاگیا،لاٹھیاں چارج کی گئیںاور شیلنگ کی کی گئی۔ صرف یہ نہیں بلکہ گولیاں برسا کر حمدان بلوچ،اصغر میروانی اور نصیر لانگو جیسے نوجوانوں کو بھی شہید کردیا گیا یہاں تک بچے بزرگ بھی شدید زخمی ہوئے۔

پچھلے 76 سالوں سے اس گٹھیا نظام کے اندر ہم دھبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہماری آزادی، ہماری خودمختاری،ہماری خوشی کے بدلے ہمیں سیاہ زندان و مسخ لاشیں مل رہی ہیں۔ ہمارے گھروں کے چراغ کو بجھا کر ہمیں اجتماعی قبریں مل رہی ہیں۔ ہم سے ہمارے لختِ جگر چھین کر گمنام تصویر تھما دیے جا رہے ہیں۔

پر اگر ظالم،ظلم و جبر کے کنویں اور گہرے کرتے جائینگے، مزید ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو بربریت کے دلدل میں پھینکتے جائینگے ہم اٹھ کھڑے ہونگے۔صدیوں سے بلوچستان جس جدوجہد میں مصروف ہے وہ جدوجہد جاری رہے گی۔جیسے شہید محراب خان نے برطانیہ کے خلاف میدان جنگ میں اترنے سے پہلے اپنے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے چند قیمتی الفاظ کہے تھے ” غلامی ایک لعنت ہے امید ہے کہ میرے بلوچ فرزند اپنی دھرتی ماں و گلزمین کا دفاع بہتر انداز میں کرینگے”۔

آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔اپنی قوم، راج و وطن کا دفعہ تاعمر کرتے رہیں گے پر ظالم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ بقول محراب خان ” ہم اپنے قوم کو غلام نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی ہم اپنی خود داری کو ظالم کے سامنے گروی نہیں رکھ سکتے ہیں”۔

Exit mobile version