Homeآرٹیکلزمیرے گاؤں کے بزرگ تحریر : سیم زہری

میرے گاؤں کے بزرگ تحریر : سیم زہری

میں روز مرہ کے طرح آج بھی اپنا موٹا سا چادر اٹھائے پیروں میں کل کے کھیتوں کی مٹی لگے ججوتے ٹھونس کر ان پے کپڑا پیر کر صاف کرتے ہوئے اپنا سیاہ رنگ کا جیکٹ جو پچھلے سال والدہ نے شال سے میرے لیئے لائی تھی۔ پہن کر جب باہر نکلا تو زہری کے اْونچے اونچے پہاڑوں سے بے انتہا سرد ہواہیں میرے گالوں کو چیرتے ہوئے گزرنے لگے میں نے خود کا چہرا چادر میں چھپائے گھر کے پیچھے سے جاتے ہوتے ہوئے کھیتوں کو جانے والے راستے پے چل پڑا۔ جب میں گھر کے بالکل پچھلے حصہ میں پہنچا تو یہاں روز کے طرح اپنے علاقہ کے ان بزرگوں کو دیکھا جو سردی میں اکثر صبح کا آدھا حصہ یہاں گزار تے تھے۔ یہ کبھی چار تو کبھی پانچ اس سے زیادہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک گول دائرہ بنایا ہوا تھا بیچ میں ایک چھوٹا سا کھڈا جس میں لکڑی کے کچھ ٹکڑے آگ کے شعلوں میں بدل رہے تھے۔ یہ چاروں بزرگ چادر میں لپٹے ایک ہاتھ آگ کے قریب تو دوسرے ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے اس بے رحم سردی کا مقابلہ کر رہے تھے
میں نے ان کو سلام کرنے کے غرض سے آگے بڑھا ان کی ہلکی سے آواز میرے کانوں پر پڑی
اب یہ تمام کسی کے بس میں نہیں۔۔۔ یہ آواز ہمارے علاقہ کے ماسٹر صاحب کا تھا، ماسٹر جو اپنے بچپن میں ہی تعلیم کے شوق سے سندھ کو چلے گئے تھے وہاں سے مدرسہ پاس کر کے اپنے زمانے میں ایک درخت کے سائے میں اس وقت کے بچوں کو پڑھاتے تھے اب وہ اس حال میں نہیں تھے مگر تب سے ان کا نام ماسٹر ہی پڑ گیا تھا۔
میں ان کے قریب پہنچ کر محبت بھرا سلام کیا۔ اور بدلے میں وہی پیار بھرا جواب ملا جس کی توقع تھی۔رسمی سلام دعا کے بعد میر صاحب نے مجھے بیٹھ جانے کو کہا اور چائے کی دعوت دی۔ اب اس ظالم سردی میں یہ سبز چائے غنیمت تھی اور میں چائے کا بڑا شوقیں بھی تھا۔ ان سب سے بڑ کر مجھے یہ سمجھنا تھا کہ ماسٹر کس شے کی نہ رکنے کی بات کر رہے ہیں۔ خیر میں موقع ضائع کیے بغیر بیٹھ گیا یہاں بیٹھے دوسرے شخص نے میرے لئے اپنے ہاتھ کا خالی کپ رکھ کر اس میں چائے بھرتے ہوئے میرے سامنے رکھا
یہ دوسرا شخص ہمارے علاقہ کا وہ بزرگ تھا جو میر کے نام سے مشہور تھا اسے یہ لقب نہ وراثت میں ملی تھی نہ ہی کسی نواب سردار کا دیا ہوا تھا۔ ہمارے زہری میں ایک چیز بے حد مشہور ہے. جیب خالی نیت کالی کیوں نہ ہو بس کاٹن کا کپڑا اور مونچھیں بڑی ہونی چائیے۔ یہی خوبی ہمارے اس میر میں بھی تھی جو میر صرف اپنے مونچھ بڑے کرنے سے بنا تھا۔
میر چادان کو نیچے رکھتے ہوئے ماسٹر سے مخاطب ہوتے ہوئے ماسٹر صاحب کیا یہ ٹھیک ہیں کسی قوم کے لیئے کہ وہ اپنے ہی قباہل کے بزرگ معتبروں سے مخالفت کرئے؟؟؟ کیا یہ درست ہیں کہ کوئی عام سا نوجواں اْٹھ کر کسی اور کے کہنے پر اپنے ہی لوگوں کا خون بہائے؟؟ ہمارے دور میں تو ایسا نہ تھا ہم اپنے سرداروں کی عزت جانتے تھے۔ ان کی خدمت کرتے تھے۔ ان کے لیئے ہر مشکل دور میں کھڑے تھے۔ لیکن آج کل یہ نوجواں کیا کر رہے ہیں۔
ماسٹر جو یہ تمام باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا۔میر کے خاموش ہوتے ہی اس سے مخاطب ہوا
میر آپ یہ بتاؤ کہ آپ تعلیم کیوں حاصل نہ کر سکے؟؟؟
میر۔ کیونکہ یہاں کوئی درسگا نہیں تھا۔ اور آج بھی تو ہم اپنے بچوں کو باہر بیجتے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے۔ آج بھی یہاں کوئی بہتر تعلیمی ادارہ نہیں ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میر اپنی بات جاری رکھنا چاہتا تھا کہ ماسٹر نے اسے روکتے ہوئے
ایک منٹ میر صاحب۔ اب یہ بتاؤ کہ آپ کی بیٹی پہلے بچے کے پیدائش پے کس درد ناک موت سے مری اس کی اصل وجہ کیا تھی جس کا تب سے اب تک آپ کو افسوس ہیں
میر۔۔۔۔ میں اپنے بیٹی کو کسی اچھے ہسپتال میں نہیں لیجا سکا اور اس کی بیماری ایسے تھی کہ یہاں کی بزرگ عورتیں بھی اس پر قابو نہ کر سکے پھر یہاں کوئی اچھا ہسپتال بھی نہیں تھا۔
ماسٹر اپنا ہاتھ میر صاحب کے طرف بڑھاتے ہوئے،، تو آپ جن کے خاطر جان تک حاضر کر رہے تھے ان کے بچے کہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کے بچے کس طرح کے ہسپتال میں پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی سوچا ہیں۔ آپ جن کے لیئے ہر مصیبت میں کھڑے تھے یہ تو اب تک ایک اچھا اسکول نہ دے سکے۔ آپ ان کی پیروی کرنے کی بات کرتے ہو جو ایک ہسپتال تک نہیں بنا سکتے اور آپ ان کی جگہ ہمارے نوجونون کو کہتے ہو کہ ان کی غلامی کرے آپ باپ ہو اس عمر بھر کے غلامی کے بدلے آپ کو کچھ نہیں ملا تو انہیں کیا ملے گا؟؟؟؟
او ماسٹر!! میر نے تعش میں آکر ماسٹر کے بات کو کاٹے ہوئے کہا۔
تو اس کا مطلب ہم اپنے سرداروں کی فرمان برداری چھوڑ دیں؟؟؟
ہمارے باپ دادا جن کی ہم قدم تھے ہم وہ راستے چھوڑ دے یہ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں
اب چونکہ مجلس گرم تھی تو میں نے اپنا کپ خالی کر کے زمین پے رکھ دیا۔ اور اپنے سوئی دار گھڑی کی طرف نظر کیا تو سات بج چکے تھے مجھے کھیتوں کو جانا تھا۔ مگر اب اس مجلس سے اٹھنے کا من نہیں کر رہا تھا اور ماسٹر کی جانب سے آتے ہوئے قرارے جواب کا انتظار بھی تھا مجھے.
ماسٹر میر سے مخاطب ہوتے ہوئے میر آپ جذباتی نہ ہو آپ جسے فرمان برداری، یا باپ دادا کے نقش قدم کہتے ہیں وہ دراصل وہ غلامی ہیں جو ہم نسل در نسل کرتے آرئے ہیں۔
ہم ہر دور میں یہ سوچ کر ان کے فرمان بردار بنتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا بڑے ہیں وہ خوب جانتے ہیں۔ ہمیں بھی وہی کرنا ہیں۔ ہم خود میں اس حوالے سے سوچنے کی طاقت کو خود ہی قتل کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم کب کس طرح اس نرگ میں پھنس گئے۔ ہم اس کی اصل شکل کو بھول کر سطحی نظر سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بس یہ ہمیں کرنا ہی ہیں۔ ہم پے یہ کب فرض ہوا ہیں کہ ہمیں ان کا فرمان بردار ہونا ہوگا، معاف کرنا میر صاحب ہم اپنے ڈر خوف اور چاپلوسی کو فرمان برداری کا نام دے رہے ہیں.
رہی بات ان پر حملہ کرنے والے کا میں ان کو مسیحا سمجھتا ہوں جنہوں نے اپنے حلالی ہونے کا ثبوت دیا ہیں۔ جس زرک زئی کے ایک عام شخص سے بات کرنے کی اوقات نہیں تھی ہم جیسے بے بسوں کو اس زرک زئی کے ظالم جابر اور سیاکاروں کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے والا ہمارے ہی زہری سے پیدا نوابی
اب یہ ہوا کہ ماسٹر خاموشی سے چائے پینے کے غرض سے اپنا کپ اْٹھاتے ہی پھر سے بولنے لگا جن کو آپ نا فرمان کہتے ہیں آج انھوں نے اپنا راستہ اور صحیح راستہ چْن کر اس پر نکل پڑے ہیں آج وہ ہم سے بہتر کر رہے ہیں اس لیے ہمیں پسند نہیں۔ میں سمجھتا ہو کہ یہ کچھ نہیں بس اپنے بچوں کو خود سے آگے نکلتے دیکھ کر جلن ہیں
ماسٹر اپنا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے پینے لگا۔ محفل پھر سے خاموش ہوا تو میر نے بھی خاموشی سے خود کو آگ کے قریب کرتے ہوئے اس کے لکڑیوں کو ہلا کر آگ کو بڑھاوا دیا۔
ماسٹر کے دائیں طرف بیٹھا بڑی اور سفید ریش سر پہ پگڑی ، موٹا چادر ہاتھ میں موٹے دستانے پیروں میں کالے بوٹ خود کو چادر میں چھپائے ہوئے یہ اس علاقہ کا حاجی تھا جس نے نوئے کی دہائی میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ حج ادا کیا تھا۔ حاجی صاحب میں ایک بات مشہور تھا یہ کبھی کسی غلط کو بھی سامنے غلط نہیں کہتے۔ اگر کسی فیصلے میں ہونگے تب بھی مْدعی اور مدعا علیہ دونوں کو صحیح قرار دینگے۔ حاجی کچھ آگے بڑ کر اپنے ہاتھ آگ سے قریب کرتے ہوئے ماسٹر آپ کی باتیں صحیح ہیں یہ ظالم ہیں قاتل ہیں عیاش پرست ہیں ہم پے ہی حکمرانی چلاتے ہیں، ہمیں کچلتے ہیں، اور ہمیں کچھ حاصل نہیں مگر۔۔
یہ بھی تو صحیح نہیں جو وہ نوجوان کررہے ہیں وہ بھی تو آج خود مختیار ہو کر ہمیں نہیں مانتے۔ وہ بھی تو اب اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کے پیچھے بھاگ رئے ہیں۔ اب بھلا اپنے سردار کو چھوڑ کر کسے اور قبیلے کے سردار کے پیچھے بھاگنا کہاں کی عقل مندی ہے۔؟؟؟؟ اب کوئی بتائیں کہ زہری کیوں کر مری کہ پیچھے چلنے لگا۔ یہ کیا بات ہوئی پھر سے سردار کے پیروکار؟؟
ماسٹر نہایت شگفتہ انداز میں حاجی صاحب ہمارے نوجوانوں کو کس طرح آپ ان کے خود مختیاری سے بے دخل کر نے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ اب بڑے ہیں اب وہ اپنے درست غلط کا فیصلہ کرنا جانتے ہیں ان کا اپنا ضمیر ہیں وہ اب صحیح اور غلط کو جانتے سمجھتے ہیں۔ اب بھی وہ پہلے سے زیادہ عزت اور احترام کرتے ہیں۔ ہاں فرق یہ ہیں کہ پہلے ہم اپنے علاقہ تک محدود تھے ایک دوسرے کے سامنے تھے ایک دوسرے کا درد پالتے تھے۔ آپ جن کو دوسروں کے پیچھے بھاگنا کہتے ہو یہی تو آج کے نوجوانوں کا مہر اور اپنا پن ہیں کہ آج وہ اپنے علاقہ سمیت اس پورے قوم کے ہمدرد اور خیر خواہ بنے ہوئے ہیں اب ان کا اپنا پن کم نہیں ہوا ہیں بلکہ بہت سارے حصوں میں بٹا ہوا ہیں۔ یہ ان کی سمجھ داری ہی ہیں کہ آج وہ ہر ایک کے درد کو سمجھتے ہیں اور اس کا حل جانتے ہیں۔ ہاں انکا سمجھ اب انھیں صحیح راستے پہ لیجائے گا تو اس میں سب کی کامیابی ہیں اگر غلط راستے پے چلے ان کے اکیلے کی ناکامی۔ لیکن اب رہی بات یہ۔۔۔۔۔۔۔۔
ماسڑ پیشانی پے بل ڈالتے ہوئے سر اوپر حاجی کے طرف اٹھاکر کہنے لگا۔۔۔ اب آپ کن سرداروں کے پیروی کی بات کر رہے ہیں یہ مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ماسٹر کو دیکھتے ہوئے مسکرا نے لگا مجھے معلوم تھا کہ ماسٹر اچھی طرح جانتے تھے حاجی کہ بات کا مطلب مگر وہ حاجی کو بات کرنے کا موقع کیوں دے رہے ہیں یہ سمجھنا باقی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھ سمیت تمام لوگ اپنے چائے ختم کر کے ہاتھ آگ کے شعلوں پے گرم کرتے ہوئے اپنے گالوں پے پھیر کر حاجی صاحب کو دیکھ رہے تھے

حاجی صاحب۔ کہنے لگا اصل میں میں ان سرداروں کے بارے میں بول رہا تھا جو اس وقت اس جنگ کے ذمہ دار ہیں میرا مطلب نواب حیربیار یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاجی کچھ سوچ کر اونچی آواز میں کہنے لگا۔ اچھا ایک واقعہ بتاتا ہوں میرے اپنے گھر میں میرا نواسہ اس نے ایک دن بی،ایس،او والے بشیر زیب کا تصویر لاکر کمرے میں لگایا جب ہم نے اسے منع کیا کہ یہاں ہم نماز پڑھتے ہیں آپ اسے نہ لگائے تو جانتے ہو اس نے کیا کہا۔
اب حاجی صاحب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رئے گئیں اور میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
اس نے ہم گھر والوں کو یہ جواب دیتے ہوئے نکل پڑا کہ بہت ہوا سجدہ اب زرہ ان کے نقش قدم پے چلو ان کے قربانی کو جانو اپنے ننگ اپنا حق صرف سجدے سے نہیں ملتا اس کے لیے سر جھکانا نہیں سرکاٹنا اور کٹانا پڑتا ہیں۔ اور ہماری خاطر لڑنے والا یہ میرا لیڈر ہیں یہ میرا کل ہیں۔
یقین مانو میر صاحب اس کے چہرے پے اتنا غصہ تھا کہ آج بھی اس تصویر کو کوئی اتار نہیں پایا اب بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ بولو ماسٹر
مجلس گرما گرم لگی ہوئی تھی اس بحث نے چائے سے زیادہ کام دیا سردے کو بھگانے میں ہم ماسٹر کی طرف متوجہ ہی تھے اس سے پہلے کہ ماسٹر کچھ کہتے یہاں موجود چوتھے شخص جس کا اب تک میں ذکر کرنا بھول گیا تھا یہ یہاں کی مسجد میں امام تھے جس نے کہیں کسی فنڈ سے اپنے گھر کے ساتھ ایک چھوٹا سے مسجد بنایا تھا جس کا تا حیات امام خود ہی تھا۔ اس کے تعلقات باہر سے آتے شیخوں تک تھی اور انہی کی دی ہوئی درس وہ اب علاقے کے بچوں میں منتقل کر رہا تھا
امام حاجی سے مخاطب ہوا ہی تھا کہ حاجی نے اپنے بڑھاپے کی عادت اپنا کر امام کو ڈانٹتے ہوئے، چْپ ہو جاؤ اڑے شیخ صاحب، ان الفاظوں کے ساتھ ہی محفل کی گرما گرمی ہمارے قہقہوں کی زوردار آوازوں نے توڑ دی امام اپنا پیشانی کجھاتا رہا.
میر حاجی سے مخاطب ہو کر حاجی آپ ٹھیک فرماتے ہیں یہ ہمارے روایات نہیں۔ حاجی تو بس اب اپنے جواب کے انتظار میں تھا میر کو بینا سنے جی ماسٹر آپ بتاہیں
ماسٹر سنجیدگی سے حاجی صاحب آپ نے کہاکہ مریوں کا نواب اور پھر آپ نے کہا حیر بیار میں آپ کو بتا دوں کے جسے حیر بیار کہتے ہیں انھوں نے تو کب کا اس سرداری نظام کو ہی رد کر دیا ہیں۔ وہ اس کے مخالف ہی نہیں بلکہ اسے ختم کرنے کی بات بھی کرتے ہیں وہ اور اس کے سنگت ہر انسان کو برابر دیکھنا چاہتے ہیں وہ اسے انگریز کا مسلط کیا ہوا غیر انسانی سلوک مانتے ہیں اب آپ بتاؤ جو انسان ایک عام بلوچ کو اپنے برابر بنا سکتا ہیں تو پھر اس میں کیا رہ گیا سرداری اور کیا رہ گیا نوابی دوسری بات آپ نے اسی سرداری نظام کے ساتھ کامریڈ بشیر زیب کا نام لیا تو میں آپ کو کہوں کہ کامریڈ بشیر زیب ہم جیسا ایک غریب اور عام انسان تھا بس فرق یہ تھا کہ وہ اپنے زندگی کا مقصد ہمارے خوشحالی کو بنایا۔ اپنے سر زمین کو اس ناپاک ریاست سے آزاد کرنے ہمیں آزاد کرنے اک نئی زندگی اک نیا دنیا جہان کوئی حاکم کوئی غلام نہیں۔ جہاں ہم اپنے کھیت پہاڑ زمین بھیڑ بکری نہروں کے مالک ہونگے، جہاں ہماری عزت آبرو ننگ ہمارے گھر و چادر پے کسی میر زیب یا اس کے سیاکار کارندے کی نظر نہیں ہوگی، جہاں ہمارے ماں بیٹیا ں خود کو ان جیسے ناسور لوگوں سے محفوظ سمجھیں گے، جہاں سب کچھ میرا ہوگا
جہاں سب کچھ آپ کا ہوگا جہاں سب ہمارا ہوگا اور سب سے بڑھ کر ہماری پہچان ہمارا بلوچستان، حاجی صاحب نسلوں سے چلتی آرہی یہ آجوئی کی جنگ اگر اب تک ہم نہیں جیت سکے تو سب سے بڑی وجہ یہی ہیں کہ ہم میں اتفاق نہیں ہم خود کو دوسرے سے بڑھ کر سمجھتے ہیں ہم نے کبھی دوسرے کو اپنا بھائی اپنا برابر نہیں سمجھا۔ ہمارے علاقہ میں جب کسی کا دوسرے قبیلے یا خاندان سے لڑائی ہوتی ہیں تو ہم ایک زمین کے ٹکڑے یا پانی کہ ایک گھنٹے کہ خاطر جنگ کے لیئے تیار ہوتے ہیں وہ بھی اپنوں سے اور یہاں ایک پوری دنیا ہمارے تمام زمین کھیت پہاڑ ہوا پانی یہاں تک ہماری سانس بھی قبضہ کیا گیا ہیں وہاں کیوں بس نہیں چلتا وہاں کیوں خون نہیں کھولتا۔ یہاں زنا کہ نام پے بستیاں اْجڑجاتی ہیں اور اتنے سالوں سے یہ سردار اور ان کا نا جائز باپ پنجابی جو کر رہا ہیں ہمارے عزتوں کے ساتھ یہ کیوں بھول جاتے ہیں۔ حاجی صاحب کہنے کو تو بہت کچھ ہیں بس آپ اتنا سوچ لینا کہ کب اْٹھو گے اب تاکہ اس ظلم کو خود تک پہنچنے سے روک سکو یا تب جب یہ سب کچھ برباد کر کے رکھ دیگا اْٹھنا تو ہیں اب فیصلا آپ کہ ہاتھ میں کھو کر اْٹھنا چاہتے ہیں یا اْٹھ کر پانا
یہ کہہ کر ماسٹر خاموش ہو گیا اس کے بعد کوئی نہیں بول پایا
اس تمام باتوں کے دوران میرے نظر ماسٹر کے آنکھوں پے تھی اور ان کہ انکھوں کی چمک میں مجھے میرا خوشحال آنے والا بلوچستاں نظر آرہا تھا مجھ سمیت باقی سب یہی چمک محسوس کر رہے تھے۔ سب یو ہی خاموش بیٹھے رہے مگر وہ اب بھی مطمئن ہو کر مطمئن نہیں تھے وہ اپنا اگلا سوال سوچ رہے تھے اب دھوپ کچھ زیادہ ہی روشنی بکھیر رہا تھا میں نے اپنی گھڑی پے نظر دوڑایا تو آٹھ بج گئے تھے اب میں چونکہ مجھے دیر ہو رہا تھا تو میں رخصت ہو کر چلنے لگا۔ ماسٹر مڑ کر مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگا
یہ سوالوں کی لمبی کڑی ہیں سنگت
میرے بعد تم تمہارے بعد میں جوابدہ ہوں.

Exit mobile version