Homeخبریںنوجوان طالبعلم رحمت اللہ بلوچ اب ہمارے درمیان باقی نہیں رہے وہ...

نوجوان طالبعلم رحمت اللہ بلوچ اب ہمارے درمیان باقی نہیں رہے وہ پاکستانی آئی ایس آئی کے نوشکی سیل میں زیر حراست غیر انسانی تشدد سے جان کی بازی ہار کر شہید ہوچکے ہیں

کوئٹہ (ہمگام نیوز ) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق پاکستانی فوج کے ہاتھوں مقبوضہ بلوچستان سے جبری اغوا شدہ بلوچ اسیران کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیم انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز نے اپنے فیسبک پیج پہ اعلامیہ جاری کیا ہے کہ نوشکی سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ بلوچ ولد پروفیسر عبدالواحد بلوچ مقبوضہ بلوچستان کے شہر نوشکی کے رہائشی ایک بلوچ نوجوان مغوی تھے جھنیں اٹھارہ جنوری دو ہزار پندرہ کو بوائز ڈگری کالج نوشکی کے قریب قائم ایف سی چیک پوسٹ سے پاکستانی آرمی اور اس کے خفیہ ادارے دن دھاڑے گن پوائنٹ پر اٹھا کر اس وقت زبردستی اپنے ساتھ لے گئے جب وہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے اپنے آبائی شہر نوشکی پہنچ رہے تھے۔ فوج کی تحویل میں غیر انسانی تشدد سے وہ جان کی بازی ہار چکے ہیں اور اب ہم میں باقی نہیں رہے۔

انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز نے مزید بتایا کہ  شہید رحمت بلوچ کی شادی جلد متوقع تھی اور وہ اپنی شادی کا سامان خریدنے بلوچستان کے شہر کوئٹہ گئے ہوئے تھے، جہاں واپسی پر مغوی کو جبری طور پر حراست میں لے کر پاکستانی فوج کے ٹارچر سیل میں منتقل کر دیا گیا۔

اطلاعات ہیں کہ نوشکی میں قائم پاکستانی فوج کے ٹارچر سیل میں شہید رحمت بلوچ کو بڑی بے رحمی اور وحشیانہ طریقے سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا  جس سے وہ 2017 ہی میں جان کی بازی ہار گئے۔ بے رحم تشدد، ناقص غذائیت، طویل علالت کے دوران علاج معالجے کی سہولیات کی عدم دستیابی رحمت بلوچ کے موت کا باعث بن گئے جو کہ ایک صاف اور واضح ریاستی قتل ہے۔

شہید کا خاندان بشمول اسکی والدہ محترمہ، منگیتر اور انسانی حقوق کے ارکان، سوشل ایکٹیویسٹ اور دیگر ہمدردوں نے 2015 سے جب پاکستانی آرمی، آئی آیس آئی اور آیم آئی نے جبری طور پر اسے اغوا کیا تب سے وہ کوئٹہ اور کراچی میں “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” کے پرامن احتجاجی ریلیوں میں اسکی باحفاظت بازیابی کے لئے شرکت کرتے رہے ہیں۔

جیساکہ دوران تشدد بلوچوں کو کئی بے رحم، خوفناک اور غیر انسانی جبر وتشدد کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، انتہائی درجے کا تشدد ہی جبر کے کئی متاثرین کے موت کا سبب بن جاتا ہے۔ تشدد سے جان کی بازی ہار جانے کے بعد بھی ان کی جسد خاکی ان کے خاندان اور والدین کے حوالے کرنے کے بجائے اسے لاوارثوں کی طرح نامعلوم ویرانوں میں بے رحمی سے پھینک دیا جاتا ہے یا پھر اجتماعی قبروں میں بے کفن دفنا دیا جاتا ہے۔

مصدقہ ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نوشکی آئی- ایس -آئی ہیڈ کوارٹر کے سربراہ المعروف کرنل عمر اور صوبیدار تیمور نے مغویوں کیساتھ بے انتہادرجے کا غیر انسانی کم ظرفی اور کمینگی روا رکھا ہوا تھا کہ ان کے جسمانی طور پر زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا گیا تھا۔

Exit mobile version