جب سے برطانوی ( انگریز ) سامراج کی تخلیق کردہ ناپاکستان معرض وجود میں لایا گیا ہے تو اس وقت سے لے کر ہنوز اس خطے کو حقیقی معنوں میں امن اور سکون نصیب نہیں ہوا۔

پاکستان کی پنجابی فوج نے پہلی فرصت میں برطانیہ کے اشارے و منصوبے کے مطابق آزاد اور خود مختار بلوچستان کی ریاست پر فوج کشی کرتے ہوئے اسے اپنی زیر نگیں کردیا۔

بلوچ کی قومی غلامی میں بلوچ کی اپنی نااتفاقیاں، وقت وحالات کی ضروریات کو پورا نہ کرنے اور قومی طاقت کا یکجا نہ ہونا دشمن کے لئے ہماری سرزمین پر یلغار کرنے کیلئے جرات کرنے کا سبب بنی۔

بلوچ قومی رہنما سنگت حیربیار مری نے گذشتہ روز سماجی رابطے کی مائیکرو بلاگنگ سائیٹ ٹوئیٹر پر برطانیہ کی یورپی یونین سے انخلا بابت ٹوئیٹ کرتےہوئے برطانوی حکومت اور بلوچستان کےحکمرانوں کے درمیان1876 کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ اس بات کا سیاسی، اخلاقی اور قانونی طور پابند تھا کہ وہ بلوچستان پر بیرونی حملے کے نتیجے میں بلوچستان کی دفاع کو یقینی بنائےگا، لیکن جب پاکستان نے 27 مارچ 1948 کو قلات پر حملہ کیا تو اس وقت برطانیہ نے پاکستان کی آزاد و خود مختار ریاست بلوچستان کےخلاف بلا اشتعال جارحیت پر بلوچ کا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو آزاد بلوچستان پر حملے کیلئے بالواسطہ اور بلاواسطہ شے ملی۔

پاکستان نے اپنی وجود سے لے کر آج تک اپنے دہشتگردانہ ریاستی پالیسیز کی وجہ سے پڑوسیوں کی ناک میں دم کر کے رکھا ہے۔ بنگلا دیش کی تحریک آزادی کی جنگ میں تیس لاکھ بنگالیوں کو بے دردی سے شہید کرکے مار دیا گیا ۔ اس قتل عام پر آج تک عالمی برادری نے پاکستان کو عالمی عدالت انصاف میں جواب دہ نہیں بنایا حالانکہ اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع پر پاکستان پر کیس ہونا چاہئیے تھا، جیسے کہ 1997 میں سابق سوشلسٹ ریپبلک یوگوسلاویہ کے سرب لیڈر سلوبوڈان ملاسیوچ کو گرفتار کے نیدر لینڈ کے شہر ‘دی ہیگ’ میں واقع اقوام متحدہ کی جانب سے توثیق کردہ عالمی عدالت انصاف میں پیش کرکے کوسوو اور بوسنیا کے ہزاروں شہریوں کے اجتماعی قتل اور نسل کشی کے خلاف سزائے موت سنائی گئی، جبکہ پاکستان کے فوجی جنرل اور حکومتی حکمران کو بلوچ نسل کشی کے خلاف تا حال رعایت دینا چی معنی دارد ؟

افغانستان میں پاکستانی فوج نے گذشتہ چھ دہائیوں سے اپنے درپردہ کرائے کے قاتلوں کو استعمال کرتے ہوئے، روسی، افغانی ، امریکی اور چالیس ممالک کی اتحادی افواج نیٹو اور مقامی باشندوں کے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہاں بھی بد قسمتی سے آج تک کسی بھی ملک نے جرات کرکے اس دہشتگرد ریاست کو عالمی عدالت انصاف میں گھسیٹ کر اسے اس کے جنگی جرائم پر سزا نہیں دلوائی، بشمول افغانستان کے نمائندے کے جہاں پاکستان پچھلے کئی دہائیوں سے آتش و آہن برسا رہا ہے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس خون ریزی کے خلاف موثر آواز نہیں اٹھائی۔

پاکستانی فوج کی مذہبی جماعتوں کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے،ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے، آزاد بلوچ ریاست پر فوج کشی اور اسے قبضہ کرنے، افغانستان میں طالبان اور دہگر مذہبی شدت پسندوں کی جنگی، معاشی، سیاسی اور سفارتی مدد کرنے، ایران کے ساتھ مل کر خطے میں پراکسی جنگیں چھیڑنے، اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ جیسی ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود بین الاقوامی برادری پاکستان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے میں اب تک ناکام نظر آتی ہے۔

پنجابی پاکستان ایک طرف آج 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منارہی ہے،کشمیریوں پرتشدد اور پھتروں سے لیس مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے ہندوستانی فوج کی جانب سے چھرا مار گولیوں کے استعمال پر آسمان سرپر اٹھاتی نظر آتی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستانی فوج نے مقبوضہ بلوچستان میں سویلین آبادی پر ایف سولہ کے جنگی جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کا بے دریغ استعمال کیا ہے، لیکن انڈیا کی فوج نے کشمیریوں کے خلاف آج تک جیٹ طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کا استعمال نہیں کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو جبری طور پر اغوا کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور اجتماعی قبروں کےحوالے کررہی ہے، طلبا، اساتذہ، حتی کہ خواتین کو بھی حراست میں لیکر ان پر جھوٹے مقدمات کا اندراج کررہی ہے۔

پاکستانی حکمران ہر سال مذہب اور اسلام کا نام استعمال کرکے کشمیر ڈے مناتی نظر آتے ہیں، لیکن کیا اس کے زیر قبضہ سندھی،بلوچ اور پشتون مسلمان نہیں؟ مزید یہ کہ پاکستان اور اس کے مذہبی ٹھیکیدار جیسے جماعت اسلامی اور ملا فضل الرحمن کی پارٹی اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کی منافقت اور ڈبل اسٹینڈرڈ دیکھئے عالمی یا داخلی سطح پر آج تک سنکیانگ کے مسلمانوں پر غیر مسلم چین کے مظالم کے خلاف کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی۔ اس بات پر بلکہ پچھلے ادوار سے بڑھ کر موجودہ عمران خان جو کہ فوج کا کٹھ پتلی وزیر اعظم ہے بڑے تندہی سے کشمیر مسئلےکو عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر اجاگر کررہا ہے۔ ویسےتو ہر حکومت کی باگ ڈور فوج ہی کے ہاتھ میں رہی ہے لیکن عمران خان کی حکومت تو برائے نام کی ہے۔ اس بار فوج کے لیے اپوزیشن کی راہ ہموار ہے، بڑے اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں پھنسا کر یا جلاوطن کردیا گیا ہے۔

فوج کے سربراہ باجوا نے عمران خان سے کشمیر مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے کھڑے ہوکر کشمیر ڈے منانے کا اعلان کروایا، اس کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ آئی ایس آئی اور فوج کےجرنیلوں کو پاکستان کے تمام سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک میں تعینات کردیا گیا، جن کا کام بظاہر کشمیر کے حق میں بیرون ممالک پاکستانیوں کو متحرک کرانا مقصود ہے لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کشمیر ڈیسک کے نام پر بیرون ممالک مذہبی جنونیوں کو فنڈنگ کرکے کشمیر میں جہاد کو فروع دینا چاہتا ہے، جب سے ہندوستان نے کشمیر میں آئین کی شق 370 ہٹادی ہے اس دن سے پاکستان نے ہندوستان کے اندر بڑے پیمانے پر مظاہروں کا اہتمام کروا کر وہاں امن عامہ میں خلل ڈالنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

کشمیر مسئلے کو اٹھانےکے لیے پاکستان کے کٹھ پتلی وزیر اعظم نے ملائیشیا کا دورہ کیا ہے جہاں پہ انہوں نے اقوام متحدہ سےکشمیر میں انسانی حقوق کی بنیاد پر مداخلت کرنے کا کہا ہے لیکن وہ یہ بھول رہا ہے کہ عمران خان نے خود اسٹیج پر کھڑے ہوکر بلوچستان میں فضائی اور زمینی جارحیت کے خلاف بات کی تھی اور اسے بلوچ نسل کشی گردانا تھا۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ عمران خان سے پوچھے کہ جس انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہ کشمیر میں مداخلت کا تقاضا کررہا ہے اس سےبڑھ کر بلوچستان کے دگرگوں حالات اور فوج کشی و بلوچ قتل عام کو روکنے کے لیے کیا اقوام متحدہ کی مداخلت ناگزیر نہیں ٹھرتی؟

پاکستان نے اپنی مختلف لابیز کے ذریعے سے یورپین یونین میں قانون دانوں پر اثر رسوخ استعمال کرکے کشمیر پر رائے زنی کرانے کا کہا لیکن اطلاعات کے مطابق ہندوستان کی مداخلت پروہاں کشمیر پر کوئی رائے قائم کرنے میں ناکام رہا. کشمیر مسئلہ بلوچستان مسئلے سے مختلف اور بڑا نہیں ہے نہ ہندوستان پاکستان کی نسبت وہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہا ہے۔ ہندوستان نے کبھی کشمیر پر جنگی جہاز استعمال نہیں کئے اور نہ وہاں مارو اور پھینکو کی پالیسی شروع کی ہے،  نہ وہاں طلبا و طالبات کی گمشدگی کے کیسز ہیں نہ وہاں خواتین کو اغوا کیا جارہا ہے پھر بھی کشمیر کو عالمی سطح پر زندہ رکھنے کے لیے جی ایچ کیو سر توڑ کوششیں کررہاہے بلکہ اب کشمیر مسئلے کو آگے لے جانے کے لیے پاکستان نے ایران، ترکی اور ملائشیا کو بھی ساتھ ملا لیاہے اور عنقریب ایک بین الاقوامی ٹی وی چینل کا اجراح بھی متوقع ہے جس میں انگریزی زبان میں کشمیر سے متعلق خبریں اور تبصرے نشر ہونگےجبکہ پاکستان نے بلوچ و پشتون آزادی پسند قیادت اورپارٹیوں کے بیانات، انٹرویوز اور مضامین تک کو نشر کرنے پر مکمل پابندی عائد کررکھی ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں بلوچ سفارتکاری کئی مشکلات کے باوجود سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، اس وقت بلوچ اپنی قومی آزادی کی واضح اور شفاف قومی بیانیہ کو قلیل ترین وسائل سے اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھا رہا ہے۔ گو کہ ہمیں ان گنت مشکلات کا سامنا ہے لیکن اپنے بازؤں پر بھروسہ کرنے والے کبھی شکست نہیں کھاسکتے اور بلوچ حقیقی جہد کار پر امید ہیں کہ وہ اپنے شہدا کے لہو سے سینچھی گئی اس عظیم تحریک کو ضرور کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔