Homeخبریںآزاد وطن کا خواب : تحریر بیرگیر بلوچ

آزاد وطن کا خواب : تحریر بیرگیر بلوچ

آزاد وطن کا خواب

بیرگیر بلوچ

دورِ حاضر میں مظلوم اقوام کیلئے عالمی طاقتوں کی مداخلت یا حمایت ناگزیر ثابت ہوچکی ہے. غیر تسلیم شدہ ریاستوں کیلئے آواز نہیں اٹھائی جاسکتی، دنیا کے کچھ اقوام کو بلکل نظر انداز کردیا گیا ہے، اس وجہ سے جنگ بندی کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آسکتی۔ خانہ جنگی کو فروغ دینے کیلئے اکثر ممالک ایسے گیمز کا حصہ بن گئی ہیں، جہاں اقوام عالم اپنے مفادات کیلئے کسی کا بھی بھینٹ چڑھانے کے لئے ہمع وقت تیار رہتے ہیں. مظلوم کی حمایت اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک اس کی مجموعی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.

آج اسرائیل اسکی جیتی جاگتی مثال ہے اگر اسرائیل کی جنگی صلاحیت کو سمجھنے کیلئے تاریخی اوراق کا مطالعہ کیا جائے، جس سے ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ ایک غیر تسلیم شدہ ملک کو ترقی دینے کیلئے کن خارجہ پالیسی اور جنگی صلاحیت کے طریقوں کا استعمال کس طرح کیا جاتاہے. 1948 سے پہلے اسرائیل نام کا کوئی ملک دنیا میں موجود نہیں تھا، جس نے ایک چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے کو اپنی ملکیت تسلیم کروایا، انقلابی سرگرمیوں کی بدولت دنیا کی آٹھویں طاقت کے طور پر ابھرا اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس فوجی طاقت نے اس مقام پر پہنچایا اگر اسرائیل غیر قانونی طور پر آج بھی قابض ہے اس کی وجہ خارخہ پالیسی اور اپنے فورسز کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے انقلابی سرگرمیاں ان کی موجب ہیں.

بلوچستان کو بھی یہ موقع حاصل ہے مگر بلوچستان کے حالات اسرائیل سے مختلف ہیں
بلوچستان بلوچو‍ں کی تاریخی سرزمین ہے، ہزاروں سالوں سے بلوچ اپنی سرزمین پر رہائش پذیر ہیں. عالمی طاقتوں کے مفادات کے پیش نظر بلوچستان کو اس وقت کوئی بھی ملک تسلیم کرنے سے قاصر ہے، تین ملکوں میں تقسیم شدہ بلوچو‍ں کی سرزمین غلامی کی چکی میں پِس رہی ہے.

مظلوموں کی حمایت محض اس وقت کی جاتی ہے، جب بڑی طاقتوں کے مقاصد پورے نہیں ہو پاتے، اس وقت مظلوم قوموں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی تحریک آزادی بھی عالمی طاقتوں کی مداخلت کا منتظر ہے. جب روس اور امریکہ کی افغانستان میں طاقت آزمائی ہو رہی تھی، اس وقت بھی بلوچستان کو تھوڑی بہت اہمیت ملی، لیکن تحریک کو مکمل طور پر سپورٹ نہیں کیا گیا. پاکستان نے دوغلے پالیسیکے تحت جب دوبارہ امریکہ کا رخ افغانستان کی جانب موڑ دیا، اس بار پھر سے بلوچ تحریک کو کوئی خاص فوائد حاصل نہیں ہوئے، صرف مسلح جہدوجہد کی راہ ہموار ہوئی.

افغانستان کی خارجہ پالیسی بلوچ تحریک کیلئے نقصاندہ ثابت ہورہی ہے. افغانستان پاکستان اور ایران کے بھروسے پر بلوچ قوم کو ناکامی کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ملےگا، افغانستان نے بلوچستان کے مسلح تحریک کو تھوڑی بہت مدد فراہم کی ہے، اب افغانستان اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور پاکستان اور ایران کے ساتھ مختلف معاہدوں پر دستخط کئے ہیں، جو بلوچ تحریک کیلئے نقصاندہ ثابت ہوگا. تینوں ملکوں کی پالیسیوں سے بلوچ تحریک کو تنہائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا.

اب بلوچوں کو خود کفیل ہو کر ریاست کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آنا ہوگا، سرمچاروں کو ایک منظم فوج کی شکل اختیار کرنا ہوگا. انہیں منظم طریقے سے معاونت فراہم کرکے ان کی تربیت کرنی ہوگی. ان تینوں ممالک اس قوت کو ختم نہیں کرسکتے، جب بلوچ سرمچار زابل بلوچستان پر قبضہ جما کر ریاست کے متبادل کے طور پر کام کریں، جہاں افغان حکومت اور طالبان دو مخالف جنگی مراحل سے گزر رہے ہیں ایسے میں اپنی طاقت کو زابل بلوچستان میں پھیلانا اور قومی سوچ کو تقویت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے. بلوچ سرمچاروں کو افغانستان میں تیسری طاقت کے طور پر ابھرنا چاہئے، طالبان کا فرسودہ نظام اتنا مضبوط نہیں جس سے بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچا یا جاسکے. مذہب کو بدنام کرنے والے پاکستان کے ایجنٹ زابل بلوچستان سے سالانہ اربوں ٹیکس اسمگلروں سےلیکر اپنا قبضہ جمائے رکھا ہے. بلوچستان کے اس حصے کو آزاد کرانے کیلئے جنگ لڑی جائے اور وہاں بلوچ قوم کی ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے پھر تحریک آزادی اور جہدوجد مضبوطی اختیار کریگا۔

سیندک پروجیکٹ کو ناکام بنانا آزاد بلوچستان کا ایک خاص مقصد ہے اس مقصد کو حاصل کرنا اس وقت ممکن ہوگا جب زابل بلوچستان کی آزادی ممکن بنائی جاسکے.

Exit mobile version