Home ھمگام واچ ایران سےپاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں سالانہ 1 بلین ڈالر کے ایندھن کی...

ایران سےپاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں سالانہ 1 بلین ڈالر کے ایندھن کی اسمگلنگ کا انکشاف: ترجمہ و اضافہ۔ ہمگام ٹیم

0

(*نوٹ: پاکستانی خفیہ اداروں کی افشاء ہونے والے 44 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ قابض ایران سے براستہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں سالانہ 1 بلین ڈالر کے ایندھن کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ ترجمہ و اضافی مشمولات کے ساتھ قارئین کی دلچسپی و معلومات کے پیش نظر شائع کی جارہی ہے ۔ہمگام ٹیم )*

ایرانی تاجر ہر سال ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کا ایندھن براستہ متحدہ مقبوضہ بلوچستان پڑوسی ملک پاکستان میں اسمگل کر رہے ہیں۔

44 صفحات پر محیط قابض پاکستانی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق، “ایرانی تیل کی اسمگلنگ” ایک طویل عرصے سے جاری غیر قانونی تجارت پر روشنی ڈالتی ہے جو ایک دہائی قبل ایرانی تیل کی برآمدات پر امریکی پابندیوں کے بعد بڑھی گئی تھی۔

ان عالمی پابندیوں نے تہران کو متبادل منڈیوں کی تلاش پر مجبور کیا، جس سے 900 کلومیٹر طویل گولڈ استمھ لائن (قابض ایران و پاکستان) سرحد پر اسمگلنگ کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف گزشتہ سال قریباً 1.02 بلین ڈالر مالیت کا ایرانی پیٹرول اور ڈیزل غیر قانونی طور پر پاکستان پہنچایا گیا جو کہ پاکستان کی سالانہ ایندھن کی کھپت کا تقریباً 14 فیصد بنتا ہے۔

اسمگلنگ نے قابض پاکستانی خزانے کو نمایاں مالی نقصان پہنچایا، جس کا تخمینہ تقریباً 820 ملین ڈالر ٹیکسوں اور محصولات کی مد میں ہوا، اور مقبوضہ بلوچستان کے دونوں اطراف اس سرحدی کاروبار نے پٹرولیم کے مقامی پاکستانی کاروبار کو منفی طور پر متاثر کیا۔

روزانہ، تقریباً 2,000 گاڑیاں گولڈ اسمتھ لائن کے آر پار سے ایندھن کے بیرل کے کاروبار کرنے میں شامل ہوتی ہیں، یہ عمل قابض ایران و پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی کشیدگی کے باوجود جاری ہے، جس میں اس سال کے شروع میں مقبوضہ بلوچستان پر دو طرفہ حملے بھی شامل ہیں۔

اس تجارت کو ممکنہ طور پر روکنے کے سماجی و اقتصادی اثرات گہرے ہیں، خاص طور پر قابض پاکستان کے غریب ترین خطہ مقبوضہ بلوچستان کے رہائشیوں کے لیے، جو ایک پرتشدد شورش کا شکار ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متحدہ مقبوضہ بلوچستان میں تقریباً 2.4 ملین لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے اس تجارت پر انحصار کرتے ہیں، جن میں چند دیگر معاشی مواقع بھی دستیاب ہیں۔

مزید برآں، مقامی میڈیا کو لیک ہونے والی اس رپورٹ میں اسمگلنگ کی کارروائیوں میں ملوث 200 سے زائد افراد کے نام شامل ہیں، جن میں سرکاری اور سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں، جس میں غیر فطری سرحدی چوکیوں پر وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور ملی بھگت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ”رشوت کا کلچر اور اسمگلروں کے ساتھ [سیکیورٹی] اہلکاروں کی ملی بھگت تقریباً تمام [سرحدی چوکیوں] پر جاری ہے۔”

اس نے کہا، رپورٹ کا افشا ہونا حکومت کی جانب سے اسمگلنگ کی کارروائیوں کے خلاف آئندہ کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک اقدام ہوسکتا ہے۔ تاہم، نفاذ کی کوششوں میں ماضی کی تضادات کے پیش نظر، اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنے کے لیے اسلام آباد کے عزم کے بارے میں شکوک و شبہات برقرار ہیں۔

ایران کے غریب مقبوضہ صوبے سیستان و بلوچستان میں ملازمت کے مواقع کی کمی اور حکومتی نظر اندازی بلوچ شہریوں کو ایندھن کی کاروبار میں ملوث ہونے کے اہم عوامل ہیں۔ گولڈ اسمتھ لائن کے دونوں اطراف میں بہت سے لوگوں کے لیے، قابض پاکستانی کو ایندھن بیچنا آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے، جو مقامی مارکیٹ سے زیادہ منافع فراہم کرتا ہے۔ یہ تجارت رہائشیوں کے لیے روزی روٹی کمانے کے چند دستیاب ذرائع میں سے ایک ہے۔ہر سال، قابض ایرانی فوجی دستوں کی طرف سے ایندھن کے کاروبار میں شامل بلوچوں کو گولی مارنے کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید ہو جاتے ہیں۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ صرف 20 مارچ سے 30 مارچ تک، 27 ایندھن کے کاروباری بلوچ قابض فورسز کی کارروائیوں، سڑک حادثات اور گاڑیوں میں آگ لگنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ متاثرین زیادہ تر نوجوان تھے، جن کی عمریں 18 سے 28 سال کے درمیان تھیں۔

2023 میں، یہ اطلاع ملی کہ کم از کم 172 بلوچ ایندھن کے کاروباری شہید ہوئے، اور 42 زخمی ہوئے۔

*رپورٹ پر ہمگام کی ٹیم کی اضافی نوٹ:*

مقبوضہ بلوچستان کے دونوں اطراف پاکستان و ایرانی قابضین حکومتوں کی جانب و ایما پر جاری تجارت کو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے غیر قانونی تجارت یا پھر اسمگلنگ کہتے ہیں۔

گولڈ اسمتھ لائن کے آر پار بسنے والے لاکھوں بلوچوں کے لیے یہ گزر بسر کا شاید واحد ذریعہ ہو، پہلے جب اس خطے میں معاشی پولرائزیشن اتنی زیادہ نہیں تھی تو پیٹرولیم سے وابستہ کاروبار کا بلوچ مقبوضہ علاقوں میں اہمیت بھی قدرے کم تھی، کاشت کاری، گلہ بانی اور دریا وردی بلوچ معیشت کے اہم جز تھے جو گزرتے وقت کے ساتھ معدوم ہوتے گئے، علاوہ اسکے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ایران پر عالمی پابندیاں عائد ہوئیں اور پاکستانی معیشت کساد بازاری اور افراط زر کے لپیٹ میں آگیا تو ان دونوں قابضین نے ایک بار پھر چوری چھپےاس کاروبار وکو بڑھاوا دیا چونکہ گزرگاہ دونوں اطراف بلوچستان ہی تھا سو بلوچوں نے بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی میں ہاتھ ڈال دئیے۔

قابض پاکستان کے پاس ڈالرز اور دیگر کرنسیوں کی قلت اور عالمی تجارت میں ادائیگی میں مشکلات تھے اور ایرانی قبضہ گیر کو عالمی اقتصادی پابندیوں کے بعد نئے مارکیٹ تلاشنے تھے جہاں وہ اپنی پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد کو چھپ چپھا کر بڑھا سکے سو دونوں نے خاموش معاہدہ کرلیا۔لیکن اس میں بھی کئی طرح کے مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا قابض پاکستان چونکہ عالمی مالیاتی اداروں، عالمی قرض دہندگان اور اپنے برآمدات کے لئے بھی موسٹ پیورڈ نیشن کے ٹیگ کو برقرار رکھنے کے لئے بھی انہی عالمی ممالک و اداروں کی طرف دیکھتا ہے سو اگر ایسے میں ایران سے بڑے پیمانے پر تجارت کی جائے تو فوائد سے زیادہ نقصانات ہونگے۔

اسکے علاوہ خود حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات سے جو ٹیکس اور محصولات اور بعض حکومتی شخصیات سے وابستہ بڑی کمپنیوں کو پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے ٹھیکوں سے حاصل ہونے والی آمدنی جب ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی اس تجارت سےکم پڑتی ہےتو پھر قابض پاکستانی ادارے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کوئی درمیان کا رستہ نکال سکیں لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں۔

بلوچ چونکہ دونوں اطراف سے مقبوضہ ہے تو جب قابض پاکستانی و ایرانی معیشتوں پر کساد بازاری، افراط زر اور عالمی پابندیوں کی وجہ سے دباؤ بڑھتا ہے تو اسکا اثر لامحالہ بلوچ پر بھی پڑھے گا اور دوسری طرف بلوچ قومی تحریک سے خائف قابض پاکستانی اداروں نے بلوچوں قوم کو معاشی اعتبار سےمزید زبوں حالی کی طرف دھکیل دیا ہے وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ بلوچ معاشی اعتبار سے قدرے بہتر ہوں اور بلوچستان میں جاری اس جد و جہد کی امداد کرسکیں پاکستانی و ایرانی قابض ریاستوں کا ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ بلوچ کو دو وقت کی روٹی کی حصول میں الجھا کر اسے باقی تمام سیاسی و سماجی احساس و زمہ داریوں سے بیگانہ کردیں۔

اسکے علاوہ سالانہ بلین ڈالرز پیٹرولیم مصنوعات کی اس کاروبار کو پاکستانی فوج و خفیہ ایجنسیاں ہمیشہ اپنے ہاتھ میں لانا چاہتے تھے سو بالآخر حالیہ آجوئی کی جد و جہد اور بلوچستان میں موجود پاکستانی فوج کی کثیر چیک پوائنٹس اور گولڈ اسمتھ لائن پر دونوں قابضین کی نام نہاد بارڈر منیجمنٹ کی وجہ سے اب اس پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر فائدہ مند اشیاء کی ترسیل کو ” ٹوکن سسٹم” کے زریعے منظم چیک اینڈ بیلنس میں رکھنے کی کوششیں کی گئیں لیکن چونکہ اس میں بلوچستان میں موجود پاکستانی قبضہ گیر فوج کے کاسہ لیسوں کے علاوہ عام بلوچ کو بھی کہیں نہ کہیں ذیلی طور پر فوائد پہنچ رہے تھے تو اب کی بار شاید قابض پاکستان پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ، نام نہاد بارڈر منیجمنٹ اور اس کاروبار کو عالمی اداروں سے مزید خفیہ رکھنے کے لئے کوئی اور سازش رچ رہا ہے۔

Exit mobile version