بلوچستان گذشتہ ایک طویل عرصے سے بد ترین ریاستی تشدد و بربریت کا شکار رہا ہے ، پاکستان کے ساتھ جبری الحاق سے لیکر آج تک بلوچستان میں ہر وقت چھوٹے یا بڑے پیمانے کے آپریشن ہوتے رہے ہیں ، ان آپریشنوں میں بلوچ سول آبادیوں پر بلا تفریق بمباری، آزادی پسند سیکیولر سیاسی کارکنان کا جبری اغواء ، لاپتہ افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا، سیاسی کارکنان کو زندہ ہیلی کاپٹروں سے گرا کر شہید کرنا ، ٹارگٹ کلنگ ، دیہی علاقوں میں غریب بلوچوں کے مال و مویشی پر بلا اشتعال شیلنگ و لوٹ مار ، کھڑی فصلوں کو آگ لگانا ، عام بلوچ آبادیوں کو بلڈوز کرکے انکے مکانات منہدم کرنا شامل رہی ہیں ۔ریاستی دہشت گردی کے شدت میں گذشتہ ایک دہائی سے مزید شدت دکھائی دیتی ہے صرف آخری ایک دہائی کے دوران کم از کم اٹھارہ ہزار سے زائد متحرک بلوچ سیاسی کارکنان کو خفیہ ادارے اغواء کرکے لاپتہ کرچکے ہیں ان میں سے سولہ سو سے زائد کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے شہروں اور ویرانوں میں نشان عبرت کیلئے پھینکی جاچکی ہیں ، بلوچستان کے علاقے توتک مژی میں ایک اجتماعی قبر بھی دریافت ہوچکا ہے جس سے 169 گمشدہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں بر آمد ہوچکی ہیں اور اسی طرح بلوچستان کے علاقے وڈھ باڈڑی ، خضدار فیروز آباد اور پشین میں مزیداجتماعی قبروں کی اطلاعات ہیں ۔ صرف سال 2013 کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گوادر سے لیکر بارکھان تک 100 سے زائد بڑے پیمانے کے فوجی آپریشن کیئے جاچکے ہیں جن میں جیٹ طیاروں ، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور بکتر بند گاڈیوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا ہے ، اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً بلوچ آبادیوں پر فورسز کی جانب سے مارٹر گولوں سے بلا اشتعال بمباری بھی اب معمول بن چکا ہے ان آپریشنوں میں درجنوں عام بلوچ شہید ، سینکڑوں اغواء اور ہزاروں گھر جلائے جاچکے ہیں ۔ اس وقت بلوچستان ایک مکمل جنگ زدہ علاقے کی صورت پیش کررہا ہے ۔ اس طویل جنگی صورتحال میں خاص طور پر بلوچ سیاسی کارکنان سخت متاثر رہے ہیں ، اس کے علاوہ اس جنگ کے اثرات بلوچ سماج پر بھی گہرے نقوش چھوڑ رہا ہے ، بلوچ معاشی ، سماجی اور تعلیمی لحاظ سے انتہائی پسماندگی کا شکار ہورہے ہیں ۔ اس ریاستی دہشت گردی کے اثرات سے بچنے کیلئے بلوچ خاص طور پر بلوچ سیاسی کارکنان اپنے جان و مال کے حفاظت کے غرض سے بڑی تعداد میں اپنے آبائی سر زمین سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ۔ اس وقت بڑی تعداد میں بلوچ سندھ ، افغانستان اور خلیجی ممالک ہجرت کرچکے ہیں اسکے علاوہ زندگی کے تحفظ کو لیکر بڑی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان یورپ ، امریکہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی پناہ لیئے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی و علاقائی میڈیا کے نظروں سے بالکل اوجھل ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں اور فوج نے بلوچستان کو صحافیوں کیلئے ایک ممنوعہ علاقہ قرار دیا ہوا ہے ، کسی بھی پاکستانی یا عالمی صحافی کو اجازت نہیں کہ وہ بلوچستان کے ان حالات کو فلمبند یا قلمبند کرے ، بلوچوں کا اپنا میڈیا ریاستی پابندیوں اور حملوں کا شکار ہونے کی وجہ سے اس ظلم و بربریت کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کی مکمل صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی فوج کے دباو میں پاکستانی میڈیا بلوچستان کی بالکل غلط اور متضاد رپورٹنگ کرتا آرہا ہے اور عالمی میڈیا کسی بھی خبر کیلئے پاکستانی میڈیا پر ہی انحصار کرتے ہیں ۔ اس صورتحال میں بلوچستان میں جاری ریاستی دہشتگردی اور تشدد کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کا واحد ذریعہ وہ بلوچ سیاسی کارکنان رہے ہیں جو اس وقت بحالتِ مجبوری امریکہ ، کینیڈا ، یورپ ، خلیجی ریاستوں اور افغانستان میں پناہ لیئے ہوئے ہیں ۔ اب بلوچوں کے آواز کو مزید دبانے کیلئے پاکستانی فوج اور اسکے خفیہ ادارے بیرونی ممالک میں بھی بلوچوں کی آواز کو دبانے اور انکے لیئے عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے متحرک ہوچکے ہیں ۔ اسی سلسلے میں گذشتہ ماہ پاکستان کے وزیر اعظم خلیجی ملک بحرین ، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر افغانستان کا دورہ کرچکے ہیں اور ان دوروں میں وہ مذکورہ ممالک پر دباو ڈال رہے ہیں کہ وہ جنگ زدہ بلوچ سیاسی کارکنان کی آواز دبائیں اور کچھ متحرک کارکنان کو انکے حوالے کریں ۔ اسی مد میں گذشتہ دنوں پاکستان کے سینٹ کے قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا جاری کردہ بیان بھی حالات کی صحیح ترجمانی یوں کررہا ہے کہ اس میں بلوچستان کو مفتوحہ علاقہ ظاھر کرکے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا گیا اور پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ بلوچ سیاسی کارکنان کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کے غرض سے کئی یورپی ممالک سے رابطہ کرچکے ہیں۔ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اسی ہفتے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور ڈجی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ برطانیہ کا دورہ کرچکے ہیں جہاں انہوں نے لندن میں مقیم بلوچ آزادی پسند رہنما حیر بیار مری اور دوسرے بلوچ سیاسی کارکنان کے حوالگی اور پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے ۔ بلوچوں کے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے حیربیار مری بلوچستان کے ایک مقبول آزادی پسند رہنما ہیں ، جو ماضی میں بلوچستان کے پارلیمنٹ میں بلوچوں کی نمائیندگی کرچکا ہے لیکن بعد ازاں انہوں نے پاکستان کو غیر جمہوری ملک قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو بے معنی کہہ کر وہاں سے کنارہ کش ہوگیا تھا ۔ اب وہ ایک طویل عرصے سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں جہاں وہ مختلف فورموں میں بلوچستان میں ہونے والے ظلم و زیادتیوں اور ناجائز قبضے کے حوالے سے عالمی میڈیا اور مہذب اقوام تک اپنی آواز پہنچا رہے ہیں ۔ پاکستان کے اس پالیسی پرکئی بلوچ قوم پرست تنظیموں نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اسکی شدید مذمت کی ہے ، اس مد میں بلوچ آزادی پسند حلقے یہ موقف پیش کر رہے ہیں کہ بلوچستان ایک ناجائز قبضے اور طویل آپریشنوں اور ظلم و جبر کا شکار ملک ہے ۔ اپنے جان کی حفاظت کیلئے دوسرے ممالک ہجرت کرنا ، وہاں پناہ حاصل کرنا اور جبر کے شکار بلوچوں کی آواز مہذب اقوام و عالمی اداروں کے سامنے بلند کرنا بلوچ سیاسی کارکنان کا بنیادی انسانی و سیاسی حق ہے ۔ جسے انسانی حقوق کے عالمی قوانین یقینی بناتے ہیں ۔ دہشتگردی کا سرغنہ پاکستان اب اپنے پالے ہوئے پراکسی جہادیوں کو بطورِ ایک بلیک میلنگ حربہ استعمال کرتے ہوئے جہاں مغربی ممالک سے امداد سمیٹ رہاہے وہیں وہ اپنے پیدا کیئے ہوئے جہادیوں کا خوف استعمال کرتے ہوئے مغربی و خلیجی ممالک اور افغانستان پر دباو ڈال رہا ہے کہ وہ پر امن بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف اقدامات کریں ۔ یاد رہے یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 14 کا شق نمبر 1 ہر انسان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ریاستی جبر وتشدد سے بچنے کیلئے کسی بھی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرسکتا ہے ۔