Homeآرٹیکلزبنگلہ دیش، عالمی بازیگر چین کا نیا مورچہ۔ تحریر: سوبدار بلوچ

بنگلہ دیش، عالمی بازیگر چین کا نیا مورچہ۔ تحریر: سوبدار بلوچ

پاکستان کو دکھ اس بات کا تھا کہ انیسو اکہتر میں بنگلہ دیش ان کے ہاتھ سے چلا گیا تھا، پاکستان نے شیخ حسینہ کو تخت سے اتروانے کےلئے اپنے لوگوں سے فسادات کروائے، اب بنگلہ دیش وہی کریگا جو پاکستان یا چین چاہیں گے۔

اس خطے میں عالمی گریٹ گیم چل رہا ہے، بین الاقوامی ممالک اپنی اپنی مفادات کی تحفظ کے لئے رجیم چینج کی پالیسیوں اور بلاک بنانے میں مصروف عمل ہیں۔

چین نے ایک گولی فائر کئے بغیر افریقہ میں اپنی من مرضی کی پالیسیاں مرتب کیں اور وہاں اپنا کنٹرول قائم کیا جس کا چرچہ نہیں کیا جاتا۔

چین بھارت کو اپنا مستقبل کا حریف تصور کرتا ہے ۔بیجنگ دہلی کی معاشی ترقی کو سکڑنے کے لئے ان کےگردگھیرا تنگ کررہی ہے ، سری لنکا کی ہبنٹوٹا پورٹ کو ننانوے سال کے لئے لیز پر لیکر ہندوستان کی تجارت کو وہاں سے بیدخل کردیا۔ ہندوستان کی سمندری گزرگاہوں کے ذریعے تجارت کے آگے روڑے اٹکانے کی خاطر ایران کے ساتھ چین نے چار سو ارب ڈالر کی پچیس سال کا معاہدہ کرلیا۔ گوگہ ہندوستان نے ایران کے ساتھ بلوچستان کی بندر گاہ چابہار پورٹ کو لیکر دس سال کا معاہدہ کرلیا لیکن یہ چین کی تجارت کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہے۔

چین نے مالدیپ کے ساتھ مل کر ہندوستان کو وہاںسے بیدخل کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان اور چین نے بیس سال تک طالبان کے کندھے پر بندوق رکھ کر جہاد کا فرضی نعرہ کے ساتھ امریکہ، نیٹو اور ہندوستان کو وہاں سے بیدخل کرکے افغانستان کی مستقبل کا باگ ڈور اپنے ہاتھوں لے لیا اور ہندوستان کو وہاں سے جانا پڑا۔

اب بنگلہ دیش کی حکومت کا تختہ الٹ کر چین اور پاکستان نے ہندوستان کو وہاں سے بیدخل کردیا ۔اس تبدیلی کے ہندوستان پر گہرے اور منفی اثرات پڑنے والے ہیں کیونکہ بنگلہ دیش کا بارڈر ہندوستان سے ملتا ہے اور وہاں اب پاکستان کی جہادیوں کا ہندوستان میں داخلے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔پاکستان پہلے کشمیر کے ذریعے ایل او سی سے دراندازی کرتا تھا اب ایک اور فرنٹ کھل گیا جہاں سے اب پاکستان کے جہادی ہندوستان کے اندر امن و امان اور شرپسندی کے واقعات کو ہوا دے سکتے ہیں اور ہندوستان کی اندرونی سالمیت کو سنگین ترین خطرات لاحق ہوگئےہیں۔

چین ہندوستان اور امریکہ کو اپنا قوی دشمن تسلیم کرکے صدیوں کی پالیسی پر گامزن ہے جبکہ امریکہ اور ہندوستان کی اپنے حلیفوں کو لیکر کوئی مستقل پالیسی نہیں رہی ہے ۔امریکہ نے افغانستان میں جن طالبان کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر نان الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی تھی بالاخر انہی طالبان کے آگے ہتھیار ڈال کر جمہوری اور لبری و سیکولر افغان سابق حکومت کو پیٹ دکھائی امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان نے بھی اشرف غنی حکومت کے سرکردہ رہنمائوں اور جمہوریت کو بچانے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھائے۔

یہ بھی دھیان طلب رہے کہ طالبان کی کابل پر چڑھائی سے کچھ ہفتہ قبل افغانستان کی ہندوستان میں سفیر فرید ماموندزئی نے ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ طالبان کی افغانستان پر قبضے کے پیش نظر کابل دہلی سے فوجی امداد بشمول ہتھیاروں کی مانگ کرسکتی ہے لیکن آخری وقت میں ہندوستان نے افغان حکومت کی مدد کے بجائے طالبان کی کابل پر حملے کو لیکر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا۔

مختصر یہ کہ پاکستان اور چین یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کو کیا کرنا ہے کیسے کرنا اور کب کرنا ہے لیکن دوسری طرف ہندوستان اور امریکہ پیش آنے والے واقعات کے بعد تدبیری اقدامات کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور حالات جب کنٹرول سے باہر نکل جاتے ہیں تو مرض کی مستقل علاج کی بجائے فرسٹ ایڈ اور مرہم پٹی کے علاوہ کچھ کرنے کی وژن نہیں رکھتے اسی لئے ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔

بھارت کے خلاف پہلے دو فرنٹ کھلے تھے یعنی چین اور پاکستان کی سرحدات پر مداخلت اب بنگلہ دیش کی سرحد بھی غیرمعمولی حد تک غیرمحفوظ ہوچکی ہے۔

Exit mobile version