Homeخبریںبی این ایف کا بالگتر میں شہدائے مارچ کی یاد میں جلسہ

بی این ایف کا بالگتر میں شہدائے مارچ کی یاد میں جلسہ

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ نےشنل فرنٹ کی جانب سے بالگتر میں بنام چیئرمین زاہد بلوچ او ر بیاد شہدائے مارچ عظیم الشان جلسہ ہوا۔بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کی گرفتار ی کو ایک سال مکمل ہونے پر بلوچ نیشنل فرنٹ ( بلوچ راجی سنگر )کی جانب سے بالگتر میں22مارچ کو ایک عوامی جلسہ ” بنام زاہد بلوچ اور بیاد شہدائے مارچ منعقد کیا گیاجس کی صدارت بی این ایف کے چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے کی جبکہ مہمان خصوصی بلوچ نیشنل موومنٹ کے وائس چیئرمین کامریڈ غلام نبی بلوچ تھے ۔ جلسہ کی شروعات شہدائے آزادی کی یاد میں خاموشی سے ہوئی اور قومی ترانہ کے بعد باقاعدہ جلسہ کا آغاز ہوا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بانک کریمہ بلوچ نے کہا مارچ کے مہینے نے بلوچ کو کئی زخم دئیے ہیں، سب سے کاری ضرب 27مارچ 1948ءکو پاکستان کی طرف سے مادر وطن بلوچستان پرقبضہ کی صورت میں لگا ، ، اسی مارچ کے مہینے میں ڈیرہ بگٹی میں خونی فوجی آپریشن کیا گیا ،اسی مہینے چیئرمین زاہد بلوچ کو گرفتار کیاگیا۔ زاہد صرف بی ایس او یا بلوچ کے لیڈر نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کے لئے ایک توانا آواز ہے جو دوسرے ہزاروںبلوچ فرزندوں کی طرح دشمن کی زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں لیکن ایسے ہی نوجوانوں کی شعوری جدوجہد اور شبانہ روز محنت سے بی ایس او ایک ادارے کی حیثیت سے قائم ہے اور قائم رہے گا کیونکہ یہ آفاقی سچائی ہے کہ کوئی بھی ادارہ اُس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک وہ ایک مضبوط نظریہ پر کاربند ہو ،زاہد بلوچ اور ذاکر مجید جیسے انسانوں کی گرفتاری و ہزاروں شہدا کی شہادت سے ہمیں نقصان ضرور ہوا ہے لیکن جدوجہد میں عظیم قربانیوں سے آج عوام میں ابھرتی قومی جذبہ ، او ر پارٹی اداروں سے استوار رشتوں کی بدولت ہماری تحریک تیزی سے منزل کی جانب گامزن ہے، ہمیں ان قربانیوں پر فخر ہے ۔عوامی شعور اور تحریک میں کامیاب پیش رفت تمام نقصانوں کی تلافی ہے۔زاہد کو لاپتہ کرنے سے دشمن کبھی بھی اپنی مطلوبہ نتائج حاصل نہیںکرسکتا ،دشمن نے چیئرمین زاہد بلوچ کو غائب نہیں کیابلکہ پوری دنیا میں زاہد بلوچ کی کردار و شخصیت کو نمایاں کردیا ہے ۔ قابض قوتیں ہمیشہ مظلوم اور محکوم قوموں کے سربراہ اور نمایاں شخصیات کو نشانہ بنا تے ہیں تاکہ ان میں توانا آواز اور سیاسی ادارک کے مالک رہنما نہ رہیںاور ر ہنمائی سے محروم ہوکرتحریک اندھی کھائی میں جاگریں ۔ہمیں اپنے رہنماو¿ں کی بازیابی اور ان کی مقصد کے لئے بھرپور انداز میں آواز اٹھاکر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ زاہد صرف بی ایس او ،بلوچ کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم قوموں کا لیڈر ہے جس کے دل میں دنیا بھر کے مظلوموں کا دل سمیٹا ہے ،ہمیشہ قابض اپنے مقبوضہ کے مقا بلے میں ہزارگنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے اس کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے اس کے مقابلے میں محکوم قوم کے لئے جنگی حالات میں وسا ئل اورقوت ضرور اہم شئے ہوتے ہیں لیکن قومیں عزم اور حوصلے سے اپنی قومی جنگیں جیت لےتے ہیں ۔عوامی قوت اُ س وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب عوام عصری شعور سے لیس ہو،اگر قوم میں شعور، حوصلہ اور قومی مقصد سے لگن نہ ہو تووہ وسائل اور قومی قوت انہیں کام نہیں دیتا۔آج قومی تحریک ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکا ہے کہ عوامی شعور کا تقاضا محض جلسوں میں شرکت اور اظہار ِ یکجہتی تک محدود نہیں بلکہ ہر اُس سازش کو ناکام بناناہے جو قومی تحریک کے خلاف ہورہے ہیں۔ وہ گروہ اور شخصیات جو بلوچ قوم کی مقدر پر مسلط ہونا چاہتے ہیں ان کامحاسبہ کریں، اگر آج ان قوتوں جن کے کندھوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بندوق رکھا ہوا ہے، انہیں اپنا لیڈر مان کر اگر ہم ان سے سوال کرنے کے قابل نہ ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آزادی کے سوال کا فہم حاصل نہیں۔آج ہمیں اس با ت کا ادراک کرنا ہوگا کہ دنیا کی سیاست اور ان کی ترجیحات ہم پرکس طرح مرتب ہوتے ہیں ۔چائنا ایک کمیونسٹ اور انسانی برابری کا دعویدار ملک کہلاتا ہے، آج ہم دیکھ رہے ہیںوہ اپنے قومی مفادات کے لئے استعماری پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں انہیں ہماری کامیابی کی صورت میں نقصان اُٹھانا پڑتا ہے اس نے بلوچستان میںبے تحاشا سرمایہ لگایا ہے اور مزید سرمایہ لگارہے ہیں، چین اپنی توسیع پسندانہ عزائم کو لے کرمعاشی فوائد کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کو اس خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں لانے کے لئے پاکستان کی مدد کررہا ہے تاکہ بلوچ تحریک کو کاﺅنٹر کیا جا سکے۔عالمی طاقتےںبلوچستان میں قابض اور ہماری اپنی صفوں میں موجود عناصر سے ڈیل کرکے یہاں سرمایہ کاری کے لئے ہر قسم کی سازش اور منصبوبہ بندی کررہے ہیں جیسا کہ خان سلیمان جسے کل بلوچ یہ سمجھ کر اپنا لیڈر مانتے تھے کہ وہ عالمی دنیا میں آزادی کا مقدمہ لڑےں گے، لیکن آج وہ مختلف کمپنیوں کے ساتھ ڈیل کررہے ہیں۔بلوچ نیشنل فرنٹ جنگی حالات اور دورانِ غلامی قومی دولت بیچنے کی حق میں نہیں ،اس لئے اُن ساہو کاروں نے خان سلیمان کی پشت پناہی شروع کردی۔دنیا کی تمام استعماری و سامراجی طاقتیں گراﺅنڈ میںحقیقی سیاسی پارٹی اور تنظیموں کی موجودگی میں اپنے مقصد کی حصول میںکسی طور کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں ۔ بلوچ عوام سے تحریک یہی تقاضا کرتا ہے کہ وہ تحریک کا ناقبل ِ تسخیر حصہ بن جائیں اور دشمن کی سفاکیت کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی صفوں میں موجود دشمنی پر آمادہ عناصر کا محاسبہ کریں ۔ہم خوش قسمت ہیں کہ بلوچ قومی تاریخ کے ایسے دور میں زندہ ہیں کہ بلوچ وطن کو ہماری ضرورت ہے ۔ یہ زمین جب تک ہے بلوچ باقی ہے جب یہ زمین ہاتھ سے چھن جائے گی تو بلوچ کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ۔گرفتاری و لاپتہ ہونے کے خوف سے کتنے دن ہم سچائی سے بھاگ سکتے ہیں کیونکہ بھاگنے والوں کی پاو¿ں تلے زمین بھی نکل جاتی ہے ۔ بلوچ عوام اگر سیاست سے منسلک نہ ہوئے تو ہماری آنے والے نسلوں کے نصیب میں ایک آزاد وطن نہیں بلکہ مہاجرین کیمپ ہونگے ۔کیونکہ تمام پارٹی ،تنظیم بلوچ عوام کی تعاون کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں اور اگر عوا م حقائق کی جانکاری نہ رکھے تو آزادی کے نام پرہمیں کوئی بھی دھوکہ دے سکتا ہے ۔محض نعروں پر بھروسہ کرنے اور اندھی تقلید کرنے والے نہ اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ اسے برقرار رکھ سکتے ہیں کیونکہ قومی آزادی کی جنگیں اپنی ہی قوت بازو سے لڑی اورجیتی جاسکتی ہیں ۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ کے وائس چیئرمین کامریڈ غلام نبی بلوچ نے کہا ،جلسے میں اتنی بڑی تعد اد میں خواتین و حضرات کا ان جنگی حالات میں اپنے قومی اجتماعوں میں شرکت اس بات کا غماز ہے کہ بلوچ باشعور اور اپنے قومی تحریک کے تئیں ہر قسم کی حالات کا جبر سہنے اور مقابلہ کرنے کاحوصلہ اور صلاحیت رکھتا ہے ۔ آج کا یہ عظیم الشان جلسہ بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کے نام اور شہدائے مارچ کی یادمیں منعقد کیا جارہا ہے۔ زاہد بلوچ ایک اُمیداور قوم کے مستقبل کا لیڈر ہے۔یہ آزادی کے تحریک کی اولین سچائی ہے کہ اس راہ میں ہزاروں فرزندوں کو قربان ہونا ہے۔دشمن چھن چھن کر ہمارے اُن نمائندوں کو شہید کر رہاہے ،لاپتہ کررہا ہے جو ہمارے مسقبل کی تعمیر کررہے ہیں ۔زندہ قومیںاپنی تحریک کا مطالعہ کرتے ا ور اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں کہ وہ کیا اسباب تھے کہ جن کی بناءپر اس مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔ آج بلوچ پوری دنیا میں اپنی آواز پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہے اس کا سہرا سیاسی اداروں کے سر سجتا ہے، جن قوموں نے قربانی کا راہ اپنا کر جدوجہد کیاہے تو انہوں نے بڑے بڑے استعماری قوتوں کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے ،خواہ وہ الجزائر ہو ،ویتنام ہو ، جدوجہد ہمیشہ ہمت اور حوصلے کا تقا ضا کرتا ہے ۔ ہماری جدوجہد یوسف عزیز مگسی جیسے لیڈروںسے1928,1930 کو شروع ہوتا ہے ہم بحیثیت قوم اس بات کاجائزہ لیں توہمیں دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ہمارے قومی نقصان کا سبب اپنے لیڈروں کا دین ہے ۔ہم نے بحیثیت قوم کبھی سیاسی اداروں کی تشکیل اور تعمیر نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ شخصیات اور بڑے بڑے نام بنائے جو آگے جاکر سیاسی بت تو بن گئے ہیں مگر اس سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ ایسے سیاسی بتوں نے ہمیشہ اس قوم کا سودا لگایا ہے ۔سیاسی اداروں کی تشکیل سے روگردانی کے مضمرات آج اپنی کارستانی دکھا رہے ہیں۔یہ کہتے ہوئے افسوس ضرور ہوتا ہے کہ ہمارے ایک بزرگ سیاسی رہبر اور ایک معمر شخصیت واجہ رحمدل مری صاحب لاپتہ کئے گئے ہیں جس نے پوری زندگی بلوچ قومی تحریک کی خدمت سیاسی پختگی کے ساتھ کیا ہے وہ بھی قابض دشمن کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے بازو¿وں نے یہ حرکت کی ہے ۔تین سالوں سے جو رسوا کن پروپیگنڈہ جاری ہے یہ قومی مفاد پر کاری ضرب کے مانند ہے ۔ آج یہ قوم محض باتوں پر ایمان نہیں لاتا بلکہ عمل کو دیکھتا ہے ،ہم بی ایل اے کو قومی تحریک کا حصہ سمجھتے تھے اور اب بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ اس تنظیم کے لئے بلوچ فرزندوںنے بے شمار خون بہایا ہے اسے یوں ایک آمر کے مفادات کے بھینٹ نہ چڑھائیں رحمدل کی بی ایل اے کے ہاتھوں گرفتاری انتہائی شرمناک عمل ہے ۔ایسی حرکتوں سے بلوچ کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔پوری دنیا میں ہماری تحریک کے تئیں ایک انتہائی غلط اور ضرررساں پیغام جاتا ہے ،بحیثیت قوم ایسے حرکات ہماری تاریخ میں ادارہ سازی کو اہمیت نہ دینے کا خمیازہ ہے جسے آج ہم بھگت رہے ہیں ۔آج قوم کو یہ سوال ہر صورت اُٹھا ناچاہئے کہ جناب آ پ بلوچ نوجوان کو کہاں لے جارہے ہیں وہ تو آزادی کی جنگ کا خواہش دل میں لے کر آپ کا حصہ بن گئے آپ انہیں برادرکشی کے گھناو¿ کھیل میں دھکیل رہے ہیں ۔ ہمیں ایک عیار دشمن کا سامنا ہے آپ کی آزادی اس کی واضح بربادی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ہماراکوئی رشتہ نہیں وہ ہماری تحریک کوکچلنے کے لئے مظالم کی انتہاکررہا ہے، وہ آج چائنا اوردوسری طاقتوں کے ساتھ مختلف منصوبوں کے ذریعے ہمارے قومی وسائل کو لوٹ رہاہے ان میں سے ایک گوادر تا کاشغر انرجی کوریڈور ہے جس کی تکمیل کے لئے نیشنل پارٹی جیسے قومی غدار پارٹی کونام نہاد نمائندہ بناکر چائناسے معاہد وں کی تجدید اور نئے معاہدے کررہے ہیں ،تر بت اور کولواہ میں آج ہزاروں لوگوں کو پاکستانی سیکورٹی فورس نے اپنے صدیوں کی مسکن سے ہجرت پر مجبور کردیا ہے ۔ آج یہاں داعش کا نام لیا جاتا ہے سچائی تو یہ ہے کہ پاکستان جرائم پیشہ ،منشیات فروش کو مجاہد بناکر پیش کررہارہاہے یہا ں ملاعمر مجاہد ہے جس کی حمایت امام بھیل کررہے ہیں یہ اسلامی جہا د نہیں بلکہ ہم پر قبضے کو دوام بخشنے کے لئے پاکستانی سیکورٹی فورس ہیں۔ہمیں ان سب کو ناکام بنانا ہے۔آج ہماری تحریک میں خواتین کی واضح شرکت اس بات کی غمازی ہے کہ بلوچ خواتین نے اس بات کا شعور حاصل کیا ہے کہ قومی تحریک خواتین کی شرکت کے بغیرادھورا اور ناکام رہے گا اس لئے وہ ہمت بہادری کے ساتھ قومی تحریک کے ہر میدان میں شانہ بشانہ کا م کررہے ہیںاور قومی اداروں میں اپنا کردار نبھارہے ہیں ۔جلسہ عام سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے سینٹرل کمیٹی کے رکن بانک ماہ گنج بلوچ نے بھی خطاب کیا ۔

Exit mobile version