پنجشنبه, مارچ 20, 2025
Homeخبریںجبری لاپتہ ناصر قمبرانی کو 24 گھنٹے کے اندر بازیاب نہیں کیاگیا...

جبری لاپتہ ناصر قمبرانی کو 24 گھنٹے کے اندر بازیاب نہیں کیاگیا تو ہم مجبورا شاہراہیں بلاک کر دیں گے، سڑکوں پر نکلیں گے، بیٹی کی پریس کانفرنس

کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) مقبوضہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کلی قمبرانی سے جبری لاپتہ بزرگ قبائلی شخصیت ناصر قمبرانی کی بیٹی نے پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ بابا کو 17 مارچ رات 2:30 بجے پاکستانی فورسز جس میں اے ٹی ایف ،سی ٹی ڈی پولیس اور سادہ لباس پہنے افراد نے ہمارے گھر پر دھاوا بولا، میرے والد کو حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔

انھوں نے کہا میرے والد ایک سماجی کارکن ہیں، انہوں نے ہمیشہ علاقے میں ترقیاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کیا اور ہمیشہ امن کی بات کی۔ وہ کوئی مجرم نہیں ہے، لیکن انہیں دوسری بار جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

انھوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم آپ کے سامنے اپنی فریاد لیکر آئے ہیں تاکہ آپ کو اپنے پیاروں کے جبری گمشدگی کے حوالے سے معلومات مہیا کریں تاکہ آپ اپنی صحافتی زمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ہماری آواز کو صاحب اقتدار لوگوں تک پہنچائیں۔

پریس کانفرنس میں کہاکہ بلوچستان کی ہر بیٹی یہ جانتی ہے کہ ریاست کے پاس اختیار ہے اور ہم اس لئیے دروازے پر دستک دیتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کا احساس زندہ ہے اور بلوچستان کی جمہوری آوازوں کو نہیں دبائینگے۔ میں بتانا چاہتی ہوں کہ میرے والد کو تین سال تک خفیہ اداروں نے حراست میں رکھا، کوئی جرم ثابت نہیں ہوا، گزشتہ حراست کے دوران ٹارچر کی وجہ سے انکی صحت پر بہت گہرا اثر پڑا، وہ ہائی بلڈ پریشر، استھیمہ اور دل کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ ہم اپنے والد کی صحت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔

جبری لاپتہ ناصر کی بیٹی نے کہاکہ یہ تین دن ہمارے لیے تین سال کے برابر ہیں! ہم مزید صبر نہیں کریں گے اور نہ ہی خاموش بیٹھیں گے۔ہم متعلقہ اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں ۔اگر میرے والد پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ پاکستانی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وضاحت دیں کہ میرے والد کہاں ہیں اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔؟ ہم مطالبہ کرتے ہیں حکومت پاکستان سے کہ میرے ولد کو جلد از جلد بازیاب کرکے اس ماہ رمضان میں ہمیں ازیت سے نکالا جائے۔

پریس کانفرنس میں کہاکہ اسی سال ہمارے خاندان سے دیگر افراد کو بھی لاپتہ کیا گیا ہے، جن میں جواد ولد قدرت اللہ قمبرانی، ابرار ولد خورشید احمد قمبرانی، ضیاء الرحمن ولد عبدالرشید قمبرانی، فضل الرحمن ولد خلیل احمد قمبرانی، علی اصغر ولد غلام علی قمبرانی بلال احمد ولد حاجی اِمام بنگلزئی اور کل رات میرے والد کے چچاذادبھائی عبدالرحمن ولد شکور احمد قمبرانی کے گھر پر چھاپہ مار کے انکو نامعلوم جگہ منتقل کیاگیا۔ ہمارے گھروں پر چھاپوں کاناختم ہونے والا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہم کوئی رعایت نہیں چاہتے کوئی غیر قانونی مطالبہ نہیں کر رہے، ہم بلوچ قوم کی دیگر ہزاروں بہنوں، بیٹیوں کی طرح یہ درخواست کررہے ہیں کہ اگر ہمارے والد یا خاندان کے دیگر فرد کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے، اگر بے گناہ ہیں تو انہیں بازیاب کیا جائے اگر ریاست کے پاس کوئی شواہد ہیں تو انہیں قانون کے مطابق سزا دیا جائے کوئی جرم ثابت نہیں تو انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، ملک کے آئین کے مطابق ایک شہری کو اُس کے آزادی کا حق دیا جائے۔

انھوں نے مزید کہاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک المناک صورتحال اختیار کرچکے ہیں کوئی ایسا گھرانہ نہیں جو اس ازیت سے دوچار نہ ہو، دوسری جانب جبری گمشدہ افراد کو فیک انکاؤنٹرز میں مارنے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ چل رہا ہے جس کی وجہ سے ہر گزرتے لمحے لواحقین ایک غیر یقینی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اسیر رہنما کی بیٹی نے کہاکہ ہماراحکومت سے صرف ایک ہی مطالبہ ھے کہ میرےوالدکو جلد ازجلد بازیاب کیا جائے۔ اگر میرے والد سے کوئی جرم سرزد ہوئی ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

24 گھنٹے کے اندر اندر اگر ہمارے جائز مطالبات نہ مانے گئے تو ہم مجبورا شاہراہیں بلاک کر دیں گے، سڑکوں پر نکلیں گے، اور ہر فورم پر آواز بلند کریں گے۔ ہم انصاف مانگتے ہیں، اور اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو ہم ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز