Homeخبریںخاران میں بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق کٹھ پتلی چیف جسٹس کو...

خاران میں بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق کٹھ پتلی چیف جسٹس کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل اے

 

خاران (ہمگام نیوز) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد بلوچ نے اپنے آفیشل ٹیلی گرام چینل بلوچ لبریشن وائس پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ روز بمورخہ 14 اکتوبر 2022 کو خاران شہر میں ہمارے سرمچاروں نے فائرنگ کرکے بلوچستان ہائی کورٹ اور پاکستان کے وفاقی شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کو ہلاک کردیا۔

آزاد بلوچ نے کہا محمد نور مسکانزئی بی ایل اے کے ہائی پروفائل اہداف میں سے ایک تھے جن پر ہماری تنظیم ماضی میں بھی حملے کرچکی ہے بلخصوص فروری 2015 میں سرمچاروں نے نوشکی میں ان کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا تاہم اس حملے میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔

بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے کہا محمد نور مسکانزئی کی گزشتہ ایک دہائی کا کردار برائے راست قابض پاکستانی فوج اور ریاست کی بلوچ دشمن رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ اپنے عدالتی کیریئر میں بحیثیت بلوچ وہ ضمیر کے اقدار سے اس قدر نیچے گر چکے تھے کہ انہوں نے طاقت اور عہدے کیلئے پاکستانی ایجنسیوں سے سینکڑوں بلوچوں کے لہو کا سودا کرلیا۔

آزاد بلوچ نے کہا 17 جنوری 2014 کو خضدار کے علاقے توتک میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، ان قبروں سے ایک سو پچاس سے زائد لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں نکالی گئیں، یہ تمام افراد مقبوضہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فوج، خفیہ اداروں اور ڈیتھ سکواڈ کے بدنام زمانہ سرغنہ شفیق مینگل کی سربراہی میں اغواء ہونے والے بلوچوں کے تھے۔ پاکستانی فوج کی جانب سے دباؤ کے باوجود شناخت کیے گئے 37 لاشوں کے ورثاء نے شفیق مینگل سمیت دیگر خفیہ اداروں کو نامزد کیا تھا۔ اس متعلق انسانی حقوق کے ریجنل و عالمی اداروں کی قاتل ریاست پر دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے خفیہ اداروں نے اس وقت کے ڈمی وزیر آعلی ڈاکٹر مالک کے ہاتھوں ایک جوڈیشل کمیشن بنائی اور ایک خفیہ کنٹریکٹ کے تحت بلوچستان ہائی کورٹ کے جج محمد نور مسکانزئی کو اس کمیشن کا سربراہ قرار دیا۔ چنانچہ اگست 2014 میں اس نام نہاد جوڈیشل کمیشن کے سربراہ محمد نور مسکانزئی نے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے نامزد کیے گئے شفیق مینگل اور خفیہ ایجنسیوں کو اس کیس سے باعزت بری کردیا اور لاپتہ افراد کو قبائلی مسئلے میں مارے گئے لوگ ظاہر کیا، اس رپورٹ میں مسخ شدہ لاشوں کی اصل تعداد کو چھپا کر اسے فقط 17 بتایا گیا۔ خفیہ اداروں کے ساتھ طہہ پانے والے معاہدے کے عین مطابق دسمبر 2014 کو محمد نور مسکانزئی کو شاباشی کے طور پر چیف جسٹس کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ اس وقت کے سینئر ججز میں محمد نور مسکانزئی وہ واحد شخص تھے جو اس شرمناک معاہدے کیلئے بِک گئے تھے۔ 2014 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے لیکر پاکستان کی وفاقی شریعت کورٹ کے سربراہ بننے تک محمد نور مسکانزئی کی متواتر ترقی کی شروعات توتک کے اجتماعی قبروں کے اوپر لکھے گئے اُس تاریخی جھوٹ سے ہوئی تھی۔

بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے مزید کہا توتک کے سینکڑوں مسخ شدہ لاشوں کے علاوہ بھی بلوچستان میں آئے روز لاپتہ ہونے والے بلوچوں اور ان کی ماورائے عدالت قتل پر خاموشی اختیار کرنے والے اس کٹھ پتلی سابق جج کو ہم ان تمام گناہوں میں دشمن ریاست کے برابر شریکِ جرم تصور کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد بجائے ندامت اور شرمندگی کے بلوچ قومی تحریک کے خلاف ان کا رویہ اور موقف برقرار رہا، اس وفاداری کے عوض دشمن ریاست کی جانب سے انہیں پوزیشن و اتھارٹی کے علاوہ متعدد مراعات سے نوازا گیا تھا۔

بی ایل اے کے ترجمان نے کہا پاکستانی حکومت، عدلیہ، پولیس و دیگر محکموں و اداروں میں کام کرنے والے تمام بلوچوں کو سختی کے ساتھ ہدایت کرتی ہے کہ پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے اختیارات کو بلوچ قومی تحریک اور قوم کے خلاف ہرگز استعمال نا کریں۔ خاران سمیت مقبوضہ بلوچستان کے تمام علاقوں میں جو لوگ ایسے سازشوں کا حصہ ہیں اور پاکستانی فوج و ایجنسیوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں، انہیں تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں بصورت دیگر ہر قومی مجرم اپنے انجام کو پہنچے گا۔

Exit mobile version