Homeخبریںریاستی رویے نے بلوچستان کی مقبوضہ حیثیت واضح کر دی ہے، ریاستی...

ریاستی رویے نے بلوچستان کی مقبوضہ حیثیت واضح کر دی ہے، ریاستی دہشتگردی سمیت سامراجی رویوں کی مذمت کرتے ہیں،این ڈی پی

شال :(ہمگام نیوز) نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں کرفیو کا سماں ہے تمام مرکزی شاہرائیں پولیس اور ایف سی کی جانب سے بند کر دی گئی ہیں ایک شہر کا دوسرے شہر سے رابطہ منقطع ہو چکاہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مسافرین مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں، بارڈر بند جبکہ علاقائی کاروبار ماند پڑھ گئی ہے،صرف گوادر ہی نہیں بلکہ بلوچستان بھر بلخصوص مکران کی عوام نان شبینہ کا محتاج بن چکی ہیں۔ سبزی و خوراک سمیت کئی علاقوں میں بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اشیاء دستیاب نہیں ہیں جبکہ گوادر میں رابطہ بحال نا ہونے کی وجہ سے اب تک غیر یقینی صورتحال ہے۔ پر امن جلسے کے خوف سے لاکھوں کی آبادی کو محصور کرنا ریاستی حواست باختگی کو واضح کرتے ہوئے یہ پیغام دیتی ہے کہ بلوچستان کے ساتھ ریاست نے قابض و مقبوضہ کا رشتہ قائم کیا ہوا ہے اور تمام سامراجی ہتھکنڈوں کو اس سر زمین اور یہاں بسنے والوں پر استعمال کر رہی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ گزشتہ پانچ روز سے بلوچستان میں لاکھوں زندگیاں ریاستی بد انتظامی کا شکار ہیں جبکہ یہ حالات ریاست اور اسکے اداروں کی دین ہیں۔ سیاست اور اظہار رائے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ان پانچ دنوں میں بیس سے زائد افراد کی شہادت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ جبری گمشدگی اور ماروائے آئین گرفتاریوں کی تعداد سو سے زائد ہو چکی ہے۔ تقریبا تمام علاقوں میں بوگس ایف آئی آر کے زریعے سیاسی کارکنوں کو حراساں کیا جا رہا ہے جس کی زد میں پارٹی کے مرکزی رہنما سنگت ثنا بلوچ، کئی زونل ممبران سمیت سینکڑوں سیاسی کارکنان آ چکے ہیں ۔ تین روز قبل شال میں پر امن دھرنے پر پولیس نے دعوہ بولتے ہوئے این ڈی پی شال زون کے نمائندوں،طلبا تنظیم کے رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے جنہیں اب تک ماروائے آئین پابند سلاسل رکھے ہوئے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ پر امن جلسے جلوسوں اور دھرنوں کو سبوتاز کرنے کے لئے ریاستی اداروں نے تشدد کو دلیل بنا دیا ہے۔ ایک ہفتے سے بلوچستان کی تمام شاہراؤں کو ریاست کی جانب سے بند کیا گیا ہے جبکہ عوام کے لئے جمہوری عمل کے تمام راستے بند کر دئے گئے ہیں۔ پریس کانفرنس کے لئے آنے والے مرد وخواتین کو پریس کلب کے سامنے سے گرفتار کیا گیا اور اس غیر آئینی عمل پر صحافی برادری کی خاموشی آزادی صحافت پر کلنک کی مہر ثبت کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ مزاکرات کے نام پر تمام غیر پارلیمانی پارٹیوں کو استعمال کرنا پارلیمان کے کٹ پتلی ہونے کی دلیل ہے جبکہ اس نام نہاد مزاکراتی مرحلے کے دوران بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی ماروائے آئین گرفتاریاں ہوئیں ۔ اب وقت آ چکا ہے کہ تمام پارلیمنٹ میں بیٹھے بلوچ کے درد سے آشنا اپنے ضمیر کو جگا کر اس کٹھ پتلی نظام سے علیحدہ ہو کراپنے استعفے جمع کریں۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی واضح کرتی ہے کہ این ڈی پی کے ممبران سمیت تمام سیاسی کارکنوں کو فوری طور رہاکیا جائے، تمام شاہرائیں کھول دی جائیں اور موبائل نیٹورک سمیت تمام زرائع مواصلات بحال کیا جائے اور بلوچوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی سر زمین پر آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کر کے اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکیں دیگر ریاستی اداروں کے لئے بھی یہ زمین ریاستی معاملات کےچلانے کے قابل نہیں رہےگا اور یہ ذہن رکھا جائے کہ بلوچوں کے بہے خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائےگا۔

Exit mobile version