Homeآرٹیکلزسیاسی جاہل یا قومی تحریک کے ابو جہل : تحریر: نوشاد بلوچ

سیاسی جاہل یا قومی تحریک کے ابو جہل : تحریر: نوشاد بلوچ

ہمگام کالم : ابو جہل عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی ہیں جاہلوں کا باپ ۔ہر سماج میں ،ہر مذہب میں ہر تحریک میں جاہلوں کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں عمرو نے اس وقت ابو جہل کا لقب پایا جب سب کچھ اسکے سامنے عیاں ہونے کے باوجود وہ ماننے سے انکاری رہا ، اپنی ذات اپنا قبیلہ اور اپنی اَنا کو ہر چیز سے بہتر سمجھنے اور جاننے کی وجہ سے ابو جہل کا لقب پایا،یہ ابو جہل ایک شخص نہیں بلکہ ایک سوچ ہے جو دنیا میں ہر جگہ ،ہر تنظیم ، ہر تحریک ، بہت سے مذاہب اور سماج میں نمودار ہوتی آ رہی ہے اور نمودار ہوتی آئے گی ۔یہ بات سچ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ابوجہل کمپنی نے وقتی طور پر نقصان دیا ہے مگر کبھی بھی کسی سیاسی ، مذہبی، اور سماجی تحریک کو مکمل طور پر فلاپ نہیں کر سکی ہے ۔ علمی دنیا میں اپنی جگ ہنسائی کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکے ہیں ۔ اس قسم کے کردار کو تاریخ نے ہمیشہ ابو جہل کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا ہے اور یہ ابو جہل کمپنی ہر دور میں realist نہیں بلکہ آئیڈیلسٹ رہے ہیں اسی آئیڈیلسٹ ابو جہل کمپنی نے بلوچ قومی تحریک کو ہر دور میں تقسیم در تقسیم کا شکار کیا ہے کبھی ریاستی آلہ کاروں نے انہی ابو جہل کمپنی کو استعمال کر کے تحریک کو تقسیم کر نے کی ناکام کوشش کی ہے تو کبھی ابو جہل جیسے کرداروں نے خود اپنی جہالت کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کو نقصان سے دوچار کیا ہے ۔
1970 کے دور میں ابو جہل کمپنی نے مڈل کلاس کا نعرہ دے کر تحریک کو جس طرح تقسیم کا شکار کیا اس وائرس کے اثرات آج تک ہماری تحریک میں پائے جاتے ہیں جسکی وجہ سے آج بھی ابوجہل پیدا ہوتے آرہے ہیں ،اور ابوجہل کمپنی کو یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئے گی کہ قومی تحریک صرف نیشنلزم کی پٹڑی پہ چلتی ہے ۔ اگر تحریک کو نیشنلزم کی بنیاد سے ہٹا کر چلانے کی کوشش کروگے تو تقسیم در تقسیم کا شکار ہونا فطری بات ہوگی،تعصب ابھریں گی ، علاقائیت ، نسل، قبیلہ، اور زبان کی وجہ سے تحریک انتشار کا شکار ہوگی جو ہوتا آرہا ہے ۔دنیا میں جتنی کامیاب تحریکیں چلی آئی ہیں انکی کامیابی میں Realistic اپروچ ہونے کا عنصر شامل رہا ہے۔
مشرقی تیمور میں شنانہ کے خلاف ان کے اپنے آئیڈیلسٹ ابوجہل کھڑے ہوگئے جو تحریک میں 98 فیصد لوگوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور یہ آئیڈیلسٹ کبھی بھی realist نہیں ہوتے ہیں اس لئے ان کو ابو جہل کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔
شنانہ کے خلاف ان کے ساتھیوں کا بھی یہی کہنا تھا جو آج ہمارے بلوچ سیاست میں ابو جہل کمپنی کا رونا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی سر زمین پہ رہ کر جنگ لڑینگے ،ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمیں باہر کی دنیا کے ملکوں سے مدد لینے کی ضرورت نہیں،اور انکا شنانہ سے یہی اختلافات تھا کہ یہ جنگ ہم صرف اپنی دھرتی پہ رہ کر لڑینگے ۔شنانہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ Realist تھا اس نے بھی کبھی خود کو سنگت حیر بیار کی طرح آئیڈیلسٹ کے فریم میں قید نہیں کیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے صرف دو فیصد لوگوں کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھا اور بلآخر اس نے Realist ہونے کی وجہ سے کامیابی حاصل کی اور یہ تمام ابو جہل جیسے کردار ندامت سے اسکے ساتھ ملکر اس کو سراہتے رہے۔
بلوچ قومی تحریک میں آج جتنی ابوجہل کمپنیاں ہیں وہ بھی حقیقت پسندی سے کوسوں دور دنیا کے ان خیالات کی پیروی میں اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہیں جن کا سراب کی مانند حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔ قومی تحریک سے نیشلنزم کی چادر ہٹا کر انھی سوچوں کے پرچار میں وقت گزاری کر رہے ہیں جس کا دنیا میں اپنا کوئی چہرہ نہیں ۔کبھی مڈل کلاس کا نعرہ دینے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ نیشنلزم قومی جنگ میں قومی آزادی کی اولین ضامن ہے ۔یہ سیاسی ابو جہل سیاسی بیان نہیں دیتے دنیا کے سامنے سیاسی لطیفے کستے رہتے ہیں اسی وجہ سے اکثر و بیشتر ان کیلئے یو ٹرن لینے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہتا ۔ اپنی طاقت کو اپنی قوم پہ استعمال کرنا ، دشمن ملکوں کا پراکسی بننا ،اپنی ذمین پہ رہ کر جدوجہد کرنا ، عالمی طاقتوں کے بغیر ملک کو آزاد کروانا حقیقت پسندی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ آئیڈیلسٹ ابوجہل ہونے کی علامتیں ہیں۔اور یہ علامتیں کسی بھی تحریک کو منجمد کرنے کے لئے کافی اثر رکھتی ہیں۔بلوچ ابوجہل کمپنی کی وجہ سے آزادی پسند عوام کے درمیان جو خلاء پیدا ہوگیا تھا اسی خلا کا فائدہ اٹھا کر ریاستی مشینری نے اپنے بیج بونا شروع کردیئے جو کافی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے زمینی حقائق سے دور محض خیالی پلاُؤ سے ریاستیں آزاد نہیں ہوتیں بلکہ زندگی کی تمام سچائیوں کو ماننا اور سچ کے لباس میں ایک pure تحریک کو آگے لیجانا کامیابی کی کنجی ہو سکتی ہے ۔عالمی طاقتوں کے بغیر بلوچستان کو اپنے بل بوتے پہ آزاد کروانا ایک اچھی فلم کا اسکرپٹ ہو سکتا ہے مگر حقیقت سے اسکا کوئی سیادی نہیں ہوسکتا ۔
میرے نظر میں آئیڈیلسٹ اور رئیلسٹ میں ایک واضع فرق یہ ہے کہ رئیلسٹ ہمیشہ حالاتِ وقت کی دی ہوئی تمام سچائیوں کو اپناتا ہے اور انہی سچائیوں کی آڑ میں اپنا پروگرام تشکیل دیتا ہے جبکہ آئیڈیلسٹ ہمیشہ زمانوں سے چلتے آ ئے ہوئے تصوراتی آئیڈیاز کے سائے میں بڑے محل بناتے ہیں اور حقیقت پرست منافق نہیں ہوتے اور نہ ان کے ہاں جھوٹ کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے وہ سچ جو تحریک کو عوام سے جڑا رکھے اسکا لہو حقیقت پرستی کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور بلوچستان کی نیچر سچ ہے بلوچ کی فطرت سچ ہے ۔اور یہی سچ یونیورسل سطح پر حقیقت کی مانند ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
بلوچ ابو جہل کمپنی جو آئیڈیلسٹ سوچ کے پیروکار ہیں ہمیشہ قومی تحریک کے لہو کو چوسنے اور قیمتی وقت کو ضایع کرنے کی موجب بنے ہیں اپنی جہالت کی وجہ سے دنیا کے سامنے بلوچ کا اپنا پورا عکس دکھانے میں اب تک ناکام رہے ہیں ۔حال ہی میں ڈاکٹر اللہ نذر کا ایک بیان سامنے سے گزرا ،بلوچ صاحب فر مارہے ہیں کہ عالمی سطح پرجو نمائندگی کی جارہی ہے وہ ناکافی ہے پھر یہ بھی کہتا ہے کہ جنگی منافع خوروں کی وجہ سے تحریک کو نقصان ہوا ہے ، ڈاکٹر صاحب نے پہلے کہا تھا کہ ہم اپنی سر زمین پہ رہ کر جنگ لڑینگے اور باہر کی سیاست کو مانتا ہی نہیں تھا ۔اب شاید کہیں سے کسی نے تھوڑا بہت ہوش کا انجیکشن ڈاکٹر صاحب کو لگایا ہوگا کیوں کہ اب وہ باہر کی سیاست سے منکر تو نہیں بلکہ صرف بے اطمینانی کا اظہار کررہا ہے بہت اچھا ۔دوسری بات ، اشارہ کرتے ہیں جنگی منافع خوروں کی طرف جو تحریک کو نقصان دینے کے ذمہ دار ہیں۔ڈاکٹر صاحب واقعی بجا فرماتے ہیں کہ جنگی منافع خور حقیقت میں نقصان دہ عنصر ہیں، اورمیں اس بات سے پورا اتفاق کرتا ہوں کہ ان کو کنٹرول کئیے بغیر کام آسان نہیں ہونگے ۔مگر ڈاکٹر صاحب نے اشارے کا رخ واضع نہیں کیا ۔باہر کے سیاسی دوستوں میں سنگت حیر بیار مری،براہمدغ بگٹی، اور کچکول بلوچ تو اس زمرے میں اس لئے نہیں آتے کہ یہ لوگ جنگ سے پہلے صاحب حیثیت تھے یہ لوگ اپنے چھوڑ کے آئے ہیں ۔اگر اشارہ حمل بلوچ ، نسیم بلوچ ، اور منیر مینگل کی طرف ہے تو ان کو کنٹرول نہ کرنا لیڈر شپ کی کمزوری کے زمرے میں آتا ہے ۔جنگی منافع خور ڈسپلن کی کمزوری ،خاطر داری، اور غیر سنجیدہ فیصلوں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ان کا ابورشن کرنا ہوگا ،زمینی حقائق ماننے ہونگے کہ آج بلوچ سماج میں جو بے اعتباری کا زہر پھیلا ہوا ہے وہ آئیڈیلسٹ کرداروں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔ آزادی پسند تنظیمیں ان جہادی تنظیموں کا روپ دھار چکی ہیں جو اپنے خلاف بولنے والے ہر شخص کو مار دیتی ہیں کہ یہ انکا قومی اختیار ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا دشمن بنانا اگر ابو جہلیت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟
کیا ڈاکٹر اللہ نظر نے بی ایل ایف سمیت اپنے اتحادی تنظیموں کا کبھی ایکسرا، الٹرا ساونڈ، ای سی جی ، کرنے کی زحمت کی ہے؟یہ کام ڈاکٹر صاحب کو خود کرنا ہوگا،اپنی سوچ اپنے وطن دوستی اور اپنی سیاسی مہارت سے تمام امراض کا تشخیص کرنا ہوگا اور پھر ان بیماریوں کو خود سرجری کرنا ہوگا کیونکہ سماج سے اگر کوئی ان تنظیموں کی بیماریوں کو ڈائیگنوز کرنے کی کوشش کرے وہ غداری کے لقب کے ساتھ بے موت مارا جائیگا ۔ قومی آزادی کی جنگ لڑنے والے سپاہی کے اندر جہادی طالبان کی روح کیسے اترتی ہے یہ لیڈر شپ کو جان لینا چاہیے،کیونکہ اسکا علاج آسان ہے اگر لیڈر ہی اپنے منفرد انداز اور انسانی جنگی قوانین کے رو سے جنگ لڑنے میں ناکام رہا تو یہ تباہی کا باعث ہوسکتا ہے اور لیڈر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میں یہ جنگ جیتوں گا، یا نہیں اگر جیتوں گا تو کتنی مدت تک کس کس پالیسی کے تحت جنگ لڑنی ہوگی،
بلوچ ابوجہل کمپنیوں کی سیاسی سوچ میں اب تک پنجابی سیاسی نفسیات کا رنگ باقی ہے جو زمینی حقائق کے مطابق مسترد ہے ۔بلوچ نے ہزاروں سالوں سے اپنے وجود کو اخلاقی اقدار اور اپنے کردار کی وجہ سے زندہ رکھا ہے ۔قوم سے منافقانہ رویہ رکھر سطحی سوچ کو پروان چڑھاکر آزادی کا گیت گانا کچھ عقل و فہم کی بات نہیں ہوگی ،
قومی جنگ لڑنے والے ہر سپاہی کے اندر ایک خالص بلوچ پیدا کرنا چاہیے، جو کردار سے بھر پور بلوچستان کا سمبل ہو جس کے لئے آرگنائز ہونا پڑتا ہے ۔ دنیا کے ان حقیقتوں سے سبق لیکر اپنی منزل کی جانب سفر کرنا ہوگا ۔

Exit mobile version