عراق میں سیکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ شمالی شہر موصل میں داعش کے خلاف جاری آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے مزید اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ داعش کے زیرتسلط مغربی موصل کے پرانے شہر کی چار میں سے ایک کالونی پر عراقی فوج نے اپنا کنٹرول مضبوط کرلیا ہے۔ اب پوے شہر میں تین کالونیوں پر داعشی جنگجوؤں کا قبضہ ہے۔
نینویٰ آپریشنل کنٹرول روم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز داعش کے خلاف پرانے موصل کے وسطی اور جنوبی حصے کی طرف تیزی کےساتھ پیش قدمی کررہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کو محفوظ گذرگاہوں سے فرار ہونے کے بعد ملنے والے مقامی شہریوں کی بھی مدد حاصل ہے۔
عراق کی انسداد دہشت گردی فورس کاکہنا ہے کہ اس نے پرانے موصل شہر کی داعش کے زیرتسلط چار میں سے ایک کالونی کا کنٹرول واپس لے لیا ہے۔
دو روز قبل عراقی فورسز نے گھمسان کی لڑائی کے بعد پرانے موصل کی اہم ترین کالونی الفاروق کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔ اس کے علاوہ فورسز نے الفارق کالونی کے نصف کے برابر الخزرج کا علاقہ بھی واپس لے لیا ہے۔ اس وقت داعشی جنگجوؤں کے پاس پرانے موصل کی صرف تین کالونیاں باقی رہ گئی ہیں۔
داعش کے پاس گرفتاری، موت یا فرار
عراقی انسداد دہشت گردی فورسز کے دو سینیر افسران نے کہا ہے کہ مغربی موصل کے بقیہ علاقوں میں داعش کے پاس موت یا ہتھیار ڈالے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ داعشی دہشت گرد شہر پناہ میں فرار کے لیے کیےبنائے گئے چور راستوں سے فرار ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ دونوں عراقی سیکیورٹی افسران کا کہنا ہےکہ موصل کا معرکہ انتہائی مشکل جنگ تھی اور یہ جنگ داعش کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔
انسداد دہشت گردی فورس کے سربرہ جنرل عبدالغنی الاسدی کا کہنا ہے کہ موصل میں داعش کے خلاف جنگ آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ ایک دوسرے عراقی فوجی افسر جنرل سامی العارضی نے کہا ہے کہ داعشی جنگجو ایک سے دوسرے مکان اور دیواروں کے اندر سے سوراخوں کے راستے فرار ہو رہے ہیں۔
پرانے شہر میں سول آبادی کے لیے تشویش
درایں اثناء انسانی حقوق کی تنظیم ریڈ کراس نے پرانے موصل شہر میں داعش کے خلاف جاری لڑائی کے دوران سول آبادی کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق قدیم موصل شہر میں کم سے کم ایک لاکھ شہری اب بھی محصور ہیں۔
ریڈ کراس کی ایمرجنسی ریلیف آپریشن کی انچارج جولیا شویرچ نے کہا کہ جنگ زدہ عراقی شہر میں روزانہ مریضوں کی تعداد میں دسیوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں بیشتر کم عمر بچے اور بوڑھے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لڑائی کے دوران زخمی ہونے والے شہریوں کی بڑی تعداد طبی مراکز تک پہنچنے تک موت کے منہ میں جا چکی ہوتی ہے۔
داعشی خلافت کا اختتام
خیال رہے کہ عراق کے شہرموصل کو داعش کہ نام نہاد خلافت کا اہم ترین ستون قرار دیا جاتا تھا مگر اس شہر کے بیشترحصوں پر عراقی فوج نے کنٹرول حاصل کرکے داعش کو وہاں سے نکال باہر کیا ہے۔ موصل سے داعشی خلافت کا خاتمہ خود ساختہ داعشی مملکت کا نقطہ اختتام ہے۔
یہی وہ شہر ہے جہاں تین سال قبل داعشی خلیفہ ابو بکر البغدادی نے جامع مسجد النوری سے شام اور عراق پرکے علاقوں پر مشتمل داعشی خلافت کا اعلان کیا تھا۔
موصل کے مشرقی حصے پر عراقی فوج نے 2016ء میں کنٹرول حاصل کرلیا تھا مگر شہر کا مغربی حصہ زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔ داعشی جنگجوؤں نے حملوں کے لیے بارود سے بھری کاروں، موٹرسائیکلوں، گھات لگا کر حملوں، مارٹر گولوں اور دھوکہ دہی جیسے حربوں کا بھرپور استعمال کیا۔ مگر آخر کار داعش کو شکست فاش اٹھانا پڑی ہے۔