Homeآرٹیکلزفلسفہ ترجیحات، سیاسی ڈپلومیسی اور مسلح جنگ کا ملاپ 

فلسفہ ترجیحات، سیاسی ڈپلومیسی اور مسلح جنگ کا ملاپ 

تحریر: زربار بلوچ
حصہ اوّل

آزادی کی تحریک بلاتوقف اور صاف صاف ایک قومی تحریک کے ساتھ ساتھ سیاسی ڈپلومیسی اور مسلح جہد کا ملاپ ہے۔ اس فارمولے پر جو قو میں جدوجہد کرچکی ہیں وہ سب کے سب آج اپنے واک و  اختیارکے مالک بن چکی ہیں اور جو قو میں اس راستے سے ہٹ کر طبقاتی، انقلاب اور دوسرے قابض کی پھیلائی ہوئی طرح طرح کے امراض کا شکار ہوئیں وہ سب لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے باوجود ناکامی سے دوچارہوئے۔ جو لیڈر قومی تھے جنکو اپنی قوم، وطن اور سرزمین کے مفادات ذاتی اور گروہی سے بالاتھے وہ قومی تحریکوں کو سیاسی، ڈپلومیسی اور مسلح جنگ کی ملاپ کے ساتھ قوم بن کر جہدکرتے رہے، جنگ لڑتے رہےآخر میں کامیابی و کامرانی نے انکے قدم چومے۔ جیولیس نیررے نے کہا کہ ;84;hroughout history nationalist struggle have had one end;58; victory وہ کہتا ہے کہ پوری تاریخ میں قومی[نیشنلسٹ ] جدوجہد کا ایک ہی اختتام ہوانصرت ،فتح دوسری طرف جموکنیتا [ جو ایک قبائلی سربراہ تھا جس نے قومی تحریک چلاکر اپنے ملک کو آزاد کروایا ]نے کہا کہ سفید فام ہمارے ملک میں آئے اور ہم کو طبقات، مراعات میں تقسیم در تقسیم کرتے گئے اور سماجی الجھنوں میں ڈال کر ہماری آنکھیں بندکرکے ہم کو ہمارے اصل مقصد اور ہدف سے بیگانہ کیا جب ہم نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے اور ہمارا وطن جاچکا ہے۔ وہ پہلا سمجھدار لیڈر تھا کہ اس نے پھر اسی قومی لائن پر سارے قبائلی اور عام لوگوں کو اکھٹا کرکے اصل ہدف پر لگاکر ڈپلومیسی،سیاست اور مسلح جدوجہد کے ملاپ سے اپنا ملک آزاد کروایا۔ دنیا کی زیادہ تر قومی تحریکوں میں طبقاتی، مذہبی اور انقلابی جہد نیشنلزم کی جہد سے نا موافق اور متضاد رہا ہے۔ افریکہ کی جہد میں تحقیق ہوا کہ مذہبی، طبقاتی اور انقلابی بنیاد پر جہدزیادہ تر قابض کا ہم نشین اور شریک رہا ہے، اس طرح کی جاہلانہ حرکتوں نے قابض کو بہت زیادہ فائدہ دیا اور قومی جہد کو کمزور سے کمزور تر کرتا رہا۔ البرٹ لوتولی افریکہ کی جنگ آزادی میں ایک مذہبی کرسچن رہا ہے اور قومی جہد کو مذہب اور غیر مذہب کی بنیاد پر ریاست کی چالوں کو نہ سمجھ کر تقسیم کرتا رہا لیکن آخر میں وہ  سمجھ گیا کہ ہماری تقسیم ہماری شکست اور ناکامی کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتی اسی لئے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تاریخی غلطی کی کہ اپنی قوم کو قابض کی چالاکیوں کو نہ سمجھ کر اپنی قوم کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے بڑا قومی جرم کیا ہے اس نے پھر احساس کیا اور کہا کہ قابض تمام مصیبت، مرض،اذیت، پریشانی کی وجہ ہے لیکن وہ ہم کو مذہب، علاقہ،طبقوں اور پارٹیوں میں بانٹ کر خود کو منظر نامے سے غائب کر کے ہم کو ایک دوسرے سے دست وگریباں کرکے ہمارے وسائل لوٹتا رہا ہے حالانکہ اسکی جبر زوراکی اور لوٹ کھسوٹ کا سب شکار ہوتے ہیں پھر بھی وہ اپنے دم چلے لوگوں کے ذریعے ہمیں طبقوں، ذاتوں اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کرکے اپنا فائدہ اٹھاتا رہتا ہے۔ جو قومی تحریکیں مقاصد حاصل کرنے والی حکمت عملی اور قوم کے اندر اور قوم کے تمام لوگوں کے ساتھ یکجہتی پیداکرنے کا سلیقہ اور اسلوب کو سمجھ کرجدوجہد کرتے رہے وہ کامیاب اور کامران ہوئے۔

 کامیاب تحریکوں سے ایک چیز کا نتیجہ نکلا ہے کہ وہ نیشلزم سے جڑ کرہی اپنے ہداف پانے میں کامیاب ہوئے۔ نیشنلزم کے کچھ عناصر ہوتے ہیں جو ایک قوم کو دوسری قابض قوم سے الگ کرتے ہیں۔ پہلا جذبہ افتخار ہوتا ہے کہ اپنی قوم پر ناز اور فخر کیا جائے اور اس کے لئے اگر کسی کے پاس کوئی تاریخی طور پر ہیرو نہیں تو وہ خود متھ بناکر اپنی قوم کو بڑھا چڑھا کرپیش کرتا ہے۔ جس طرح ترکی میں مصطفی کمال پاشا نے ترکی میں اپنے سکولوں کے نصاب میں لکھا تھا اور ترکوں کو پڑھایا کہ حضرت آدم ترک تھے تاکہ ان میں نیشنلزم کا جذبہ زیادہ ہو۔ دوسرا جذبہ غیرت، یہ جذبہ قوم کے ہر فرد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی قوم کا ساتھ دے انکو اپنی قوم کا طرفدار کرتا ہے اور جذبہ قومی تحفظ جس میں لوگ اپنے وطن اور سرزمین کی خاطر قربانی دینے پر راضی ہوتے ہیں لیکن یہاں سے قابض پھر کوشش کرتا ہے کہ جہد کو قومی لائن کی بجائے طبقاتی ،مذہبی اور انقلابی لائن کی طرف مائل کرے تاکہ قوم تقسیم درتقسیم ہو کر نیشنلزم سے ہٹ جائے۔
 اگر بلوچ قومی تحریک کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو بلوچ ایک قوم ہے اور اسکی ہزاروں سال کی ایک تہذیب ہے اور بلوچ کلچر،تمدن، رسم رواج بلوچ قوم کو باقی اقوام سے مختلف کرتے ہیں۔ بلوچ اپنی سرزمین پر سولویں صدی سے حکمران رہے اور پھر انگریز نے آکرر بلوچستان پر قبضہ کیا حالانکہ انگریز سے پہلے بھی مختلف قابض قوتوں نے بلوچستان پر قابض ہو کر بلوچ کو غلام بنانے کی کوشش کی مگر بلوچ قوم نے انکا مقابلہ کرتے ہوئے انکو اپنی سرزمین سے نکال دیا۔ انگریز نے آکر بلوچستان پر حکمرانی کرنے کی کوشش کی مگر بلوچ قوم نے ڈٹ کر قبضہ گیر کا مقابلہ کیا۔ بلوچ قوم کو دنیا کی باقی تمام محکوم اقوام کی نسبت یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنگ عظیم میں برطانیہ کے تمام محکوم اقوام نے انکو فوج دی کہ وہ برطانیہ کی فوج کے ساتھ ملکر اسکے دشمنوں سے لڑیں جس میں ہندوستان سمیت پوری دنیا سے لاکھوں لوگ قابض کی خاطر جنگ میں مارے بھی گئے لیکن جب انگریز نے بلوچستان میں بلوچ قوم سے فوجی بھرتی کرنے کے لیے بلوچستان میں انگریزوں کے گونر جنرل کے نمائندے سر جے رمزے نے ۶۱۹۱ میں کوئٹہ کے مقام پر ایک جرگہ کیا اس نے سرداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے تمام راجوں مہاراجوں اور پنجاب کے تمام لوگوں نے فوجی بھرتی دے کر حکومت برطانیہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا اور اسی طرح بلوچستان کے سردار بھی انکی پیروی کرتے ہوئے اپنی وفاداری کا ثبوت دیں۔ اس نے سختی سے فوجی بھرتی کا کہا لیکن سرداروں نے جواب دینے کی بجائے مہلت مانگی کہ وہ مشورہ کرکے اسکو جواب دیں گے پھر بلوچ سرداروں کے اجلاس میں مکمل اتفاق راے قائم ہوا کہ وہ انگریز کو فوجی بھرتی کے لے نہیں دیں گے اور قول وقرار ہوا کہ سب اپنی باتوں پرڈٹ جائیں گے لیکن بعد میں انگریز نے ان سے الگ الگ معاملات چلا کر انکے اتحاد کو توڑ کر فوجی مانگے تو خیر بخش مری اول کے بغیر باقی سب انگریز کے سامنے سجدہ ریز ہوئے اور ان کو فوج کے لئے افرادی قوت دینے کے لئے راضی ہوئے۔اس کے بعد تمام دیگر سرداروں نے انگریز سے کہا کہ اگر خیر بخش فوجی دینے کے لیے راضی نہیں ہوئے تو وہ بھی فوجی نہیں دینگے انگریز نے خیر بخش پر دباؤ ڈالنا شروع کیا گورنر جنرل خود انکے پاس گیا ان کو بڑے بڑے عہدے اور انعام کا لالچ دیا اور کوشش کی کہ وہ انکو فوجی بھرتی کے لیے دیں لیکن وہ نہیں مانے اور بیباکانہ کہا کہ وہ انکو فوجی بھرتی کرنے کے لیے نہیں دے گا۔ پھر ان کی انگریز کے ساتھ گنبد کی تاریخی لڑائی ہوئی اور اس وقت سے لیکر آج  تک مری قبائل قابض کے خلاف دلیری سے لڑتا آرہا ہے۔ اس قبائل سے نکلے لیڈر خیر بخش مری اور سنگت حیر بیار مری کی شکل میں کسی بھی طرح کے دباؤ میں نہیں آئے اور خیربخش مری محکوم اقوام میں واحد لیڈر تھے جنہوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور انگریز کو فوج دینے سے بھی انکار کیا۔
 بلوچ تاریخ میں ہر وقت جب بھی قابض آئے تو مریوں سے جو لیڈر نکلا وہ خیربخش اول کی طرح دلیر بہادر اور مصلحت پسندی کا کبھی بھی شکار نہیں رہا جس میں خیربخش دوئم نے بھی قابض پاکستان کے خلاف آخر تک سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ڈٹ کر قابض کا مقابلہ کیا۔ شروع سے لیکر آخرتک ان کے موقف اور باتوں میں یکسانیت رہی۔ دوسرے حیر بیار مری جنہوں نے اپنی وزارات قبائلی اثر رسوخ ،علاقہ مال اور دولت سب کچھ داؤ پر لگا کر موجودہ جدوجہد کی بنیاد رکھی۔ قوم کو ایک نیا وژن اور فکر دیا۔
اگر ہم حقیقت پسند بن کر چیزوں کا مشاہدہ کریں تو دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جو معاشی و معاشرتی لحاظ سے خود کفیل ہوں لیکن اس کے باوجود وہ پسے ہوئے تکلیف و مصیبت زدہ لوگوں کے لئے آواز اٹھائے اور جدوجہد کرے۔ ایک شخص جس کے پاس مال، دولت وزارات، رتبہ اور حیثیت ہو لیکن ان تمام آسائشوں کو چھوڑ کر تحریک چلائے جو ان تمام چیزوں کو ٹھوکر مارنے کے مترادف ہے جبکہ دوسری جانب وہ جن کے پاس کچھ نہیں وہ آکر کام کریں ان دو مرحلوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ جب بالاچ خان مری اور نواب اکبر خان بگٹی دشمن سے لڑ رہے تھے۔ بالاچ لندن چھوڑ کر ایم پی اے بنے۔ انکو وزارات کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی بلکہ جاکر پہاڑوں میں جنگ لڑی۔ اسی طرح نواب اکبر خان بگٹی بھی اپنی شہنشاہانہ زندگی چھوڑ کر قومی جنگ کا حصہ بنے۔ اسی دوران ہم ایک بڑے نامی گرامی دانشور کے دفتر میں بیٹھے تھے، کسی دوست نے ان سے اس جنگ کے حوالے بات کی ان کی رائے معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ میرا تجربہ اور تجزیہ ہے، ہو سکتا ہے آپ نوجوان جذباتی بنیاد پر میرے تجزئے کو ابھی نہ سمجھ کر رد کرو گے لیکن ایک دن آپ لوگ مان لوگے کہ میرا تجزیہ صحیح تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ میں آج جو لوگ اپنی وزارت،شہنشاہیت اور دولت چھوڑ کر جدوجہد کے ساتھی بنے ہیں، یہ لوگ کبھی بھی پیسوں اور اختیارات کے لئے سمجھوتہ نہیں کریں گے بلکہ اپنی باتوں پر ڈٹ جائیں گے۔ لیکن وہ لوگ جنکے پاس کچھ نہیں تھا وہ کسی تجربے سے نہیں گزرے انکو تھوڑے سے مراعات و پیسہ توڑ سکتا ہے اور وہ لالچ میں آکر پوری جہد کو بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ اس وقت ہم نوجوان اور جذباتی تھے خود کو بڑے ترم خان سمجھ کر سب پر اندھا دھند یقین رکھتے تھے کہ جو لوگ پہاڑوں میں ہیں وہ کس طرح پیسہ اور لالچ سے نہیں توڑے جاسکتے لیکن آج کے تجربے نے مجھے بھی سکھایا کہ اس وقت ان کا تجربہ اور تجزیہ دونوں صحیح تھے۔
 بالاچ خان اور اکبر بگٹی تو شہادت تک قومی مقصد کو مظبوط کرتے رہے اور قومی سوچ کو پروان چڑھاتے رہے جبکہ حیر بیار مری کی بیس سال سے باتوں اور موقف میں سرد گرم مشکلات کے باوجود کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ بلکہ انہوں نے بھی کوشش کی کہ بلوچ قومی تحریک کو مسلح،سیاسی اور ڈپلومیسی ملاپ سے چلا کر جہد کو ا سکی منزل تک لے جاکر کامیاب کرے۔ شروع میں انہوں نے کوشش کی کہ قومی تحریک مری بگٹی اور مینگل علاقے سے نکل کر بلوچ قومی موومنٹ بنے کیونکہ اس سے پہلے جتنی بھی تحریکیں چلیں سب ایک یا دو علاقہ یا کہ قبائل تک محدود رہے لیکن انہوں نے جدوجہد کو وسعت دیکر اسکو قومی بنایا اور وہ جدوجہد کاہاں کوہلو سے نکل کر قلات مکران اور خاران تک پھیل گیا اور انہوں نے بی این ایم اور بی ایس او کی موجودگی میں کوئی پارٹی نہیں بنائی بلکہ انکو ہر طرح کی مدد وکمک فراہم کی اور جن کے ساتھ اگر اتحادی رہے تو انکے ساتھ بھائیوں کی طرح سلوک کرکے انکو مظبوط کرتے رہے ان کو  معلوم تھا کہ وہ مظبوط ہونگے تو قومی جہد توانا اور طاقتور ہوکر مزید دشمن کے لیے مشکلات پیدا کرسکے گا لیکن جب مہران مری کامسئلہ ہوا انہوں نے اپنے دوستوں کو اپنے والد کی بات رد کرتے ہوئے بی ایل ایف کے پاس بھیجا کہ وہ اس مسئلے کا قومی حوالے سے کوئی حل ڈھونڈ نکالیں۔ کیونکہ وہ اس مسئلے کو قبائلی اور بھائی باپ کے درمیان کا مسئلہ نہیں سمجھ رہے تھے بلکہ اس کو ایک قومی مسئلہ سمجھ کر اور مسئلے کو سیاسی اور قومی طریقے سے اداروں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کی سوچ قومی تھی اور اب بھی قومی ہی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ بلوچ جہدکار قومی اور فکری لائن کے تحت مظبوط ہوں تاکہ قومی جہد مظبوط ہو۔ لیکن اس مسئلے کے بگاڑ کے ذمہ دار یا بی ایل ایف کے ذمہ داران تھے یا پھر حیربیار مری کے بھیجے گئے لوگ، کیونکہ بھیجے گئے لوگوں نے اپنے سفر کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا کہ بی ایل ایف کی قیادت کا رویہ انتہائی غیر مناسب اور غیر سنجیدہ تھا۔اس وفد میں شامل نمائندوں نے مزید یہ بتایا کہ جو بی ایل ایف کے ساتھیوں کی جانب سے رویہ تھا وہ ایسا محسوس کروا رہا تھا کہ اس مسئلے کی وجہ سے آپ لوگ کمزور ہوگئے ہو اور تقسیم کی جانب بڑھ رہے ہو، اگر یہ مسئلہ حل ہوا تو یہ طاقت پھر آپ کو حاصل ہوگی، آپ لوگ مزید طاقتور اور توانا بنوگے۔ بقول اس نمائندےکے کہ اس لیے ان لوگوں نے لیت ولعل سے کام لیا۔ اب اس صورت میں سنگت کی جگہ کوئی بھی بندہ ہو تا وہ کیا رائے قائم کرتا کہ جن لوگوں کے پاس چار بندے اور چار بندوق بھی نہیں تھے، سنگت نے قومی سوچ کے تحت مری بھیجے انکو کمک کیا کبھی بھی اس نے نہیں سوچا کہ وہ کمزور ہوں بلکہ اس نے انکو قومی تحریک کے ایک پلر اور ستون کی طرح سمجھ کر مظبوط کرنے کی کوشش کی بی ایس او اور بی این ایم کی موجودگی میں اپنی پارٹی اور تنظیم تک نہیں بنائی اور ہمیشہ انکی ہر طرح کی حمایت کرتے رہے لیکن جب باقیوں کو تھوڑا بھی اختیارکیا ملا وہ قومی سے نکل کر گروہی کی شکل اختیار کرنے لگے۔ اگر یہ باتیں جھوٹ ہیں تو آ ج وہ ایلچی اور پیغام رساں بھی انکی صفوں میں کھڑا ہے اور اس نے انہی باتوں کو لیکر قوم کو گواہ بنایا اور اپنی تحریر میں ساری باتیں تحریر کیں کہ بی ایل ایف قیادت کا رویہ کس طرح غیر سنجیدہ تھا۔ اسکے بعد جو ہوا، قومی تحریک جس کی بنیاد خالص قومی بنیاد پر رکھی گئی تھی اس کو قومی سے کلاس کی طرف لے جانے اور سیاست، ڈپلومیسی اور مسلح جدوجہد کے ملاپ کا ستیا ناس کرکے قومی جہد کو دانستہ یا غیر دانستہ نقصان پہچانے کی کوشش کی گئی۔ قومی طاقت قوم کے خلاف استعمال ہوئی اور ریاست نے کوشش کی کہ وہ اپنے سرایت کردہ لوگوں کو کمانڈر اور ذمہ دار بناکر ان مسلح تنظموں میں ڈال کرانکی سمت تبدیل کرے۔ ایسے لوگوں نے قومی بندق سے اپنے اپنے دشمنوں کو مار کر اور لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرکے پوری قوم کو قومی جہد سے مایوس کرنے کی کوشش کی اور بعد میں وہ سب کے سب یکے بعد دیگرے دشمن کی پناہگاہ میں چلے گئے، اب وہی لوگ ڈیتھ اسکواڈ کی شکل میں لوگوں کے لئے عذاب بن چکے ہیں۔
***جاری ہے***
Exit mobile version