کراچی(ہمگام نیوز) لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو1880دن ہو گئے۔ اظہار یکجہتی کے لئے آنیوالوں میں بی ایس او آزاد مچھ و بولان کا ایک وفد کی کراچی میں لاپتہ افراد و شہدا کے لوحقین سے اظہار ہمدردی کی۔ اور بھر پور تعاون کا یقین دلایا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آگ و خون کے منظر کو گہرا بنانے والے ریاستی طاقت انہیں روز نئی انسانی المیوں اور جبر و استبداد کا شکار بنا رہے ہیں۔ وہ تمام علاقے جہاں بلوچ قومی مزاحمت کی گہری اور وسیع سماجی بنیادیں ہیں مقتددرہ ریاستی قوتوں کی مسلح و جارحانہ کاروئیوں اور مختلف سازشوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ فورسز اور خفیہ اداروں کے آپریشنز اور بلوچ نوجوانوں و طلباء سیاسی کارکنوں صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ماورائے عدالت اغواء نما گرفتاری جبری گمشدگیوں اور لاپتہ بلوچوں کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کی برآمدگی روز کا معمول بن چکی ہے۔ مگر حکمران قوتیں ان ذہنی ناقابل تردید حقائق کو کسی کی ذہنی اختراع قرار دے کر بلوچستان میں جاری فورسز کی آپریشن سے مکمل انکار کررہی ہے۔لیکن فوجی کاروےؤں سے انکار کے دعووں کی ایک اور نفی گزشتہ ماہ بولان کے مختلف اعلاقوں میں فورسز کے آپریشن میں نظر آئی۔ اس دوران فورسز نے گن شپ ہیلی کاپٹرز اور بھاری فوجی ساز و سامان اور کثیر نفری کے ساتھ سنی شوران اور آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بنایا۔ جس میں مقمی آبادی کوشدید جانی و مالی نقصان پہنچا۔ متعدد عام بلوچ شہید و ذخمی ہو گئے۔ اور عام لوگوں کی بڑ ی تعداد کو حراست میں لیکر غائب کردیا گیا۔ وائس فا بلوچ مسنگ کے چئیرمین ماما قدیر بلوچ و سمی بلوچ نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بلوچ قوم کو اپنی مرضی و خواہش کے مطابق آزادی زندگی کا حق حاصل نہیں ہو جاتا تو اس حق کا تقاضا کرنا بین الاقوامی قوانین و اخلاقیات اعلیٰ انسانی و جمہوری اقدار کے منافی نہیں۔ اگر کوئی غیر قانونی، غیر اخلاقی و غیر انسانی و غیر جمہوری عمل ہے تو وہ اس بنیادی حق و اس کی بحالی کی جدوجہد کرنے والوں کو بزور ریاستی طاقت کچلنے کا رویہ ہے۔ کیونکہ حق تسلیم کرنے کی صورت میں بلوچ قوم کو خون میں نہلانے اور اس کی سرزمین اور وسائل پر تسلط جمانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا اور اپنی جارحیت و تسلط سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس لئے چور کو توال کو ڈانٹ رہے ہیں اور چور کے اتحادی و حواری بھی چور کی حمایت میں کھڑے ہیں اور ۔الٹا کوتوال کو لعن طعن کیا جا رہا ہیکہ وہ چور کو چوری اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ کیوں دیتا ہے۔ ایسے ہی جب بلوچ نے اس کی گردن پر پاؤں رکھنے اور ہاتھ مروڑنے کے بال نوچے تو سب چیخ اُٹھے