Homeآرٹیکلزماما ابھی نہیں ۔۔!! تحریر : بشیر زیب بلوچ

ماما ابھی نہیں ۔۔!! تحریر : بشیر زیب بلوچ

طویل سفر شدید تھکاوٹ سے چکنا چور سردی کے موسم میں گرم آہوں کے جونکھوں میں بدن پسینے سے شرابور پیاس کی شدت پانی کی قلت دور دور تک پانی کے آثار کجا ہر طرف سنسان، نا پاوال ، نہ شوان بس ایک ہی ٹوٹا ہوا لفظ زبان سے کبھی کبھار نکل پڑتا “امیر خبر اف دائسکان سنگت آتا اوتاک مْر ءِ! یعنی پتا نہیں امیر (شہید) دوستوں کا کیمپ ابھی تک دور ہے بس صرف ایک ہی فارمولہ تھا یعنی ہمت اور کوشش کرنے کا دامن نہیں چھوڑناتھا،کہ حرکت سے منزل حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔ حرکت نہ کرنا۔۔۔۔ آسرے پہ رہنا خود لا حاصل ، بے منزل ثابت ہوگی۔
خیر آخرکار جنوری 2008 ؁ ء شام پانچ بجے جن سے ملنا تھا جدھرملنا تھا وہ سب مل گئے۔
کافی دوستوں کے درمیان انگور کے سرمئی پہاڑوں میں پُرپیچ گھاٹیوں میں ، میں نے ماما کو پایا لیکن پتہ نہیں تھا ماما کیوں ماما؟ ماما کون ۔۔۔؟ پتہ نہیں ! بس اتنا جانتا تھا کہ ماما دوست ہے ہمسفر ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کسی وقت انگور کی سرمئی پہاڑ دوستوں کے لئے تلخ یادوں ، درد بھری آہوں سے صبر آزما پہاڑ بن کر اْبھرے گی کیونکہ یہ وہی انگور کے پہاڑ ہے جہاں ماما کے علاوہ شہید امیر الملک، شہید زبیر، شہید ناصر،شہید حق نواز، شہید رشید، شہید خلیل، شہید نصیب اپنے قدموں کے نشانات چھوڑ چکے ہیں ابھی انہی راستوں سے گزر نا قیام کرنا شاید میرے جیسے کمزور انسان کے لئے صبر آزما ء امتحان ہوگا کیونکہ سب دوستوں کی محسوسات یکسانیت ہوگی لیکن کیا کرے اسی لیے کہتے ہیں تحریک سخت ترین آزمائش کی کانٹوں سے بھری پڑی تکلیف دو افسر دہ تلخ یادوں کے ساتھ جینے کا نام ہے۔
میرے لئے کسی بھی شہید کے بارے اظہار خیال شروع دن سے آج تک نا سمجھنے والا تکلیف دہ عمل رہا ہے، پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔!
شاید میں شہید کی شان میں انصاف اور نا انصافی کے ترازوں کو سمجھنے سے قاصر ہوں یا پھر کچھ ماہر فنکار یا موقع پرست ذہن کے مالک افراد کی طرح مردہ پرست نہیں ہوں کیونکہ روایت قائم ہوچکا ہے کہ زندگی میں کسی انسان کو انسان ہی نہیں سمجھنا چاہیے۔ سنگت قریبی سنگت ہو، مخلص سنگت ہو، ایماندار سنگت ہو، بہادر سنگت ہو لیکن اس کے مرنے کے بعد اسے مصنوعی انداز میں تمام مذکورہ خصوصیات اور القابات سے نوازنا شاید میرے جیسے کم مہارت رکھنے والے انسان کے بس کی بات نہیں ۔ حقیقت اسی دلیل کے متقاضی کرتا ہے کہ کسی کو کسی خاصیت، صلاحیتوں، جذبہ، مخلصی و بہادری بے غرضانہ صبرانہ سوچ کو حیات زندہ میں پرکھنا سمجھنا سب سے بہتر اور غیر روایتی عمل ہوگی۔ ماما کی تمام یادیں اپنی جگہ 2008 ؁ میں جدھر آپ بیٹھتے ماما پہنچ جاتا، کتاب ہاتھ میں مجھے سبق دو ، مجھے پڑھنے کا شوق ہے۔ بچپن میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا، علاقے میں اسکول اور تعلیم کا نام و نشان نہیں ہے کبھی کبھار سستی کاہلی یا مجلس میں بیٹھے ہوئے ہنسنے مسکرانے کا ماحول میں ماما کتاب ہاتھ میں لیکر آتا اور کہتا میرے پڑھنے کا وقت ہے۔
میں کہتا ماما یار چھوڑو آپ سارا دن پڑھنے کے موڑ میں ہو۔۔
ماما مسکراتے ہوئے بس اتنا کہتا، سنگت علم حاصل کرنا ہے کیونکہ علم وہ ہتھیار ہے جو بندوق کو صحیح راستے پر گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
واقعی ماما آپ تو جلدی فلاسفر بن گئے پھر2010میں ماما سے پھر ملاقات ہوئی۔ بھائی ماما تو اب اردو پڑھنے لکھنے سمجھنے پر پورا عبور حاصل کرچکا ہے ذہین ماما واقعی تو انقلابی تھا فوجی کاموں میں ماہر اور تجربہ کار تھا کشیدہ حالات میں بھی آپ ہمیشہ بہادر کمانڈروں کی طرح دوستوں کو حوصلہ دینے کی ایک پر عزم علامت تھا اکثریت سے میں نے دیکھا ہے قبائلیت ، علاقائیت، معتبری ، انائیت سے لوگ ظاہری تو شدید نفرت کرتے بلند بانگ دعوؤں سے زمین و آسمان ایک کردیتے لیکن حقیقت میں انکے عمل رویوں سے ہمیشہ انہی قومی ناسورکی بدبو پھیلتی رہتی ہے۔
وہ ماما ہی تھا جس کی اظہار اور عمل میں کوئی فرق ظاہر نہیں ہوتی ۔ واہ ماما دوست گواہ ہیں آپ کے زندگی میں بھی ،میں برملا اظہار کرتا کہ آپ جیسا انسان کس خمیر، کس مٹی سے بنا ہے آخر آپ کی تربیت کس سانچے میں ہوا ہے۔۔۔۔۔ شہید امیر الملک کی شہادت کو 7 اپریل 2015 کو پورا ایک سال مکمل ہوچکا تھا کہ 10اپریل کو مجھے فون پر اطلاع ملی کہ دشمن نے بڑے چالاکی و مکاری کے ساتھ مزدوروں کی شکل میں کوئلے کی ٹرکوں میں بھیس بدل کر آیا تھا ۔ ماما اور دو ساتھیوں کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں ماما اور دو ساتھی شہید ہوئے ۔۔۔
آہ بھری انداز میں ،میں نے سوچا واقعی دشمن کو بھی اندازہ تھا، بغیر مکاری و چالاکی سے ماما کو مارنا دشمن کے بس کی بات نہیں تھی پھر میں نے سوچا واقعی ارتھ شاسترکے مصنف کو تلیہ چھانکیہ کے وہ سنہرے الفاظ کہ مخلص آدمی کی مثال خشک لکڑی کی ہوتی ہے جو جلدی کاٹ جاتی ہے ماما سے میری آخری اور تاریخی ملاقات اس وقت ہوئی جب انہوں نے شہید درویش کو فدائین مشن کی پوری ذمہ داری صحیح طریقے سے سرانجام دے کر واپس وتاک آکر درویش کی آخری وقت میں حوصلوں اور بہادری کی باتوں کو یاد کرتے ، کبھی کبھار خوشی کے آنسوؤں سے ماما کی آنکھیں نم ہوتے کہ واقعی بلوچوں میں درویش جیسے بہادر انسان پیدا ہوتے ہیں اس کے بعد درہ بولان سے ہم واپس ہوگئے شاید میرے ذہین میں نہیں تھا، پھر ماما کو کبھی نہیں دیکھ پاونگا، صرف غموں ، آنسوؤں میں ماما ہی ہوگا، ماما کا کاروان ہی ہوگا، ماما کے قدموں کے نشان ہی ہونگے لیکن ماما نہیں ہوگا۔
میں ماما کے شہادت کے بعد سے لے کر آج تک دل و دماغ میں سوچتا ہوں اور کہتا ہوں۔
ماما ابھی نہیں۔۔۔۔۔ ماما ابھی نہیں۔۔۔۔۔ آپ کو جانا نہیں تھا۔
ماما ابھی تک دشمن زندہ ہے ۔ ماما ابھی تک سارو، بزگر، نودگوار، انگور کی چوٹیوں میں بیٹھ کر آپ کے ساتھ خوش گپی کی تشنگی باقی ہے۔ ماما ابھی تک گشت میں تمھارے ساتھ مسخرہ و مزاق کا موڑباقی تھا ۔
ماما ابھی نہیں ۔۔۔۔ ماما آپ کو جانا نہیں تھا شاید مادروطن کو آپ کی لہو درکار تھی آپ نے بھی وہ پورا کردیا۔۔ اور ہمارے جیسے بدبختوں پر ایک اور امتحان نازل کردیا۔۔

Exit mobile version