Homeآرٹیکلزمسلہ یوکرائن :ماسکو کا مسئلہ صرف نازی یوکرائن نہیں

مسلہ یوکرائن :ماسکو کا مسئلہ صرف نازی یوکرائن نہیں

تحریر ـ حفیظ حسن آبادی

بظاہر یوکرائن میں روسی اسپیشل آپریشن کی بنیادی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ روس یوکرائن کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ نیٹو کا پروکسی بن کرروس کیلئے مستقل مسلے کھڑی کر سکے اور روسوفوبیاکی بنیاد پرہمسائے میں ایسی شاونسٹ و فاشسٹ نسل پروان چڑھے جو کل روس کے وجود کو خطرات سے دوچار کرے مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت عیاں ہوتی جارہی ہے کہ اگر امریکہ یوکرائن کے زریعے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ختم کرنے اور اسے بین القوامی طور پر تمام معاملات سے بے دخل کرنا چاہتا ہے تو روس امریکہ کے عزائم کو بھانپ کر نہ صرف یوکرائن میں ڈی نازیفکیشن(De- Nazification)،ڈی ملٹریزائزیشن) (De- Militrizationکا ارادہ رکھتا ہے بلکہ وہ پہلے جارجیا اور اب یوکرائن کو روس کے سامنے دشمن کے طور پر کھڑی کرنے والے امریکہ کا ہاتھ روکنے کیلئے ڈی امریکنائزیشن  De-Americanization))کامرحلہ طے کرکے دنیا کو ملٹی پولر ماحول فراہم کرکے عالمی توازن کا نیا نظام متعارف کرانے کی کوششیں کررہا ہے۔

جہاں تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بیانات کا تعلق ہے وہ تواس بات کے امکان کو رد کرتے ہیں کہ یوکرائن روس کیلئے مسلہ پیدا کرسکتا تھا اس لئے روس کا اسپیشل آپریشن شروع کرنا ایک مفروضے کی بنیاد پر کھڑی غلط قدم ہے۔مگر پچھلے دنوں سابق جرمن چانسلر آنگلا میرکل(Angela Merkeil )فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند Francois Holland))اور یوکرائن  کے سابق صدر پیترو پراشینکو (Petro Poroshenko)کے بیانات امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ان عزائم کی تصدیق کرتے ہیں جہاں تینوں متذکرہ لیڈروں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ فرانس،جرمنی و آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کواپریشن ان یورپ  (OSCE) کی ثالثی میں روس اور یوکرائن کے درمیان طے پانے والے 2014/15 میں ہونے والے مینسک معاہدات کا مقصد یوکرائن کیلئے وقت لینا تھا تا کہ وہ روس کے خلاف جنگ کی تیاری کرکے روس کو شکست دے سکے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ روس جس عمل کو امریکہ و مغرب کی طرف سے امن کی کوششیں اور ڈپلومیسی کو موقع فراہم کرنے کی خواہش سمجھ رہا تھا در اصل وہ روس کے خلاف ایک سازش تھی ایک دھوکہ تھا۔

یوکرائن کو جنگ کیلئے تیار کرنے کیلئے مغرب نے زبردست فنڈنگ کے ساتھ ہر طرح کی مدت کی تاکہ وہ 1967 ء کے عرب اسرائیل جنگ کی طرح مختصر مدت میں روس کو شکست دے۔کیونکہ اسرائیل کے معاملے میں وہ کامیاب ہوئے تھے جو ایک نوزائیدہ ریاست اسرائیل نے پانچ عرب ملکوں (سعودی عرب،اردن،شام،مصر،عراق  جبکہ کویت اور لبنان کی بھی جزوی مدد شامل تھی )کوچھ دن میں شکست دی تھی مگر یہاں وہ یوکرائن سے اسرائیل نہ بناسکے اور نہ ہی روس اُن کے اندازے کے مطابق کمزور نکلا۔

مغرب کی بے پناہ مدد اور ہر طرح کی پشت پناہی کے باوجود کیوں یوکرائن اسرائیل جیسا طاقتور و منظم نہ بن سکا؟  اس سوال کا جواب اس مختصرمگر غیر مناسب جملے میں ایک امریکی سابق میرین افسرآندریو میلبورن (Andrew Milburn) نے دیا ہے جو یوکرائن میں ’موزارت گروپ(Mozart Group)کا بانی مانا جاتا ہے نے روس کے خلاف یوکرائینیوں کو جنگی تربیت دی ہے وہ کہتے ہیں:

   ”corrupt f****d-up society   Ukraine is a“۔

اس ایک جملے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکیوں کا اپنے اتحادی قوم کے بارے میں کیا رائے ہے مگر وہ اسکے باوجود یوکرائن کو روس سے لڑانے کے پروجیکٹ سے دستبردار نہیں ہوئے کیونکہ ایک تو وہ اس پروجیکٹ پر بھاری سرمایہ کاری کرچکے تھے دوسرا یہ کہ کوئی اور ہمسایہ ملک روس سے خواہ مخواہ ٹکر کی غلطی کرنے آمادہ نہیں تھا۔یا یوں کہیے کہ کوئی بھی گلے کیلئے سونے کا ہار حاصل کرنے گردن کٹانے آمادہ نہیں تھا۔

یہاں یہ کہنا مکمل طور پرشاید درست نہ ہو کہ امریکہ اور اسکے اتحادی یوکرائن کی تیاریوں سے مطمئن تھے،کیونکہ اگر وہ یوکرائن کی روس کے خلاف تیاریوں سے مطمئن ہوتے تو کبھی بھی جلد بازی میں افغانستان کوپاکستان کی جھوٹی گارنٹی پر طالبان کے حوالے کرکے یہاں سے بھاگ نہیں  جاتے(افغانستان کو دوزخ میں ڈالنے اور امریکی ناکام انخلا پر ہم الگ مضمون میں بحث کریں گے)۔افغان مسلے سے نسبتاًًفارغ ہونے کا مقصد یہی تھاتاکہ روس اگر کسی بھی مرحلے پریوکرائن پر حملہ کرے تو وہ سب مل کر روس کے سامنے کھڑے ہوجائیں۔

اس خیال کے پیش نظر مغرب نے اپنی پوزیشن بہتر کرنے کیلئے پہلا فرنٹ سینٹرل ایشیا میں کھول کر روس اور اسکے اتحادی ریاستوں (خاص کر تاجکستان و ازبکستان) کو وہاں مصروف رکھکر دوسرا فرنٹ یوکرائن میں کھولنے کیلئے پورا کا پورا توجہ مبذول کیا۔مگر یہ منصوبہ اس طرح ناکام ہوا کہ انھیں افغانستان میں سینٹرل ایشیا کیلئے فرنٹ کھولنے کا موقع ہی نہیں ملاکیونکہ جو داعش کے ہزاروں جنگجو افغانستان کے شمال میں اشرف غنی حکومت کے آخری دنوں میں جمع کئے گئے تھے اُنھیں سینٹرل ایشیا پہنچا کر اُنھیں منظم کرکے اُنکی ترتیب و تشکیل نہیں ہو پائی تھی کہ روس نے غیر متوقع طور پر پہل کرکے یوکرائن میں جنگ چھیڑ دی۔

یہاں ایک بات قابل ذکر رہے کہ ایک طرف روسی وزارت دفاع و انٹیلی جینس اداروں نے مل کرمغرب اور یوکرائن کو روس کے خلاف مزید تیاریوں کا موقع نہیں دیا تو دوسری طرف روسی وزارت خارجہ نے افغانستان سمیت اس ریجن میں بے مثال حکمت عملی اپنا کر سب کو یا تو اپنا اتحادی بنایا یا اُنھیں غیرجانبدار رہنے آمادہ کیاجس کے لئے امریکہ اور اسکے اتحادی بالکل بھی زہنی طور پر آمادہ نہیں تھے۔

یوکرائن کی”کامیابیوں“ کے داستانوں کی حقیقت:مغربی میڈیا میں یوکرائن میں روسی اسپیشل آپریشن کے شروع دنوں سے چند باتیں تواتر سے کی جا ررہی ہیں جن میں سے کچھ باتیں بہت جلد افواکی طرح پھیلے اور ہوا میں گم ہوئے مثلاً صدر پوتن شدید بیمار ہے اور وہ کسی بھی وقت اقتدار سے سبکدوش کئے جائیں گے یا یہ کہ یوکرائن میں جنگ کو لیکر روس میں پوتن کے خلاف لوگ اُٹھ رہے ہیں،روسی معاشرہ اندر سے تقسیم در تقسیم کا شکارہے جس سے کریملن شدید دباؤ میں ہے جو کسی بھی وقت پوتن کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے یا یہ کہ روسی معشیت زمین بوس ہوجائیگی اور روس سوویت یونین کی طرح اقتصادی مسائل کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ کر بکھر جائے گا یا یہ کہ یوکرائینی فوج زبردست  پیشقدمی کررہی اور روسی فوج اُن کے مقابلے میں بہت کمزور ہے انھیں میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے۔

مگر اب وقت نے ہر چیز کو اس کے صحیح جگہ پر رکھ دی ہے اور ہمارے سامنے نتیجہ یہ ہے کہ پوتن مکمل طور پر تندرست ہے، روسی قیادت میں مذکورہ مسلے کو لیکر کوئی اختلاف موجود نہیں، روسی معاشرہ بھی کسی بھی وقت سے زیادہ متحد ہوچکا ہے،روسی معشیت یورپی معشیت سے کئی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے جہاں افراط زر 4.7%  اور5% کے درمیان ہے جبکہ یورپ میں 10%سے لیکر 20%  تک ہے۔

یوکرائن کو اب تک صرف امریکہ کی طرف سے سو ارب ڈالرکی جنگی مدد ملی ہے مگراس کی ”کامیابیوں“ اور”پیشقدمیوں“کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے زمین کا 27% روس کے قبضے میں آچکا ہے ہے اور اُسکی 50% آبادی ملک چھوڑ کر روس، یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر پناہ لے چکی ہے۔اس کا انرجی سیکٹر90% تباہ ہوچکی ہے اُسکی فضائی صلاحیت تو جنگ کے شروع دنوں میں ہی روس نے تقریباً تقریباًتباہ کیا تھا۔ بین القوامی طور بھی جغرافیائی لحاظ سے دنیا کی 80%جغرافیہ یا روس کے ساتھ ہے یااس کے خلاف پابندیوں کا مخالف ہے یا روس سے تعلقات ختم کرنے کا حامی نہیں اور آبادی کے لحاظ سے چھ بلین انسان یا روس کے ساتھ ہیں یا روس کو دیوار سے لگانے امریکہ کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے۔مزید برآں امریکہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود  برکس (برازیل روس،انڈیا،چین،ساؤتھ افریقہ)BRICS ممالک کو روس کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے آمادہ نہ کرسکا۔ نہ شنگھائی کوپریشن ارگنائزیشن۔ SCO   وگروپ آف ٹوئنٹی  G20 سے روس کومعطل یا خارج کیا جاسکا ہے اسی طرح دی ارگنائزیشن اف دی پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز OPEC) )میں بھی روس کے خلاف کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ اب اس کے باوجود اگر مغرب میں یہ بات کی جاتی ہے کہ یوکرائن یہ جنگ جیت رہاہے اور روس دنیا میں تنہائی کا شکار ہو کر ہار رہا ہے تو وہ ایسا کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ افغانستان میں بھی ٹھیک ایسا ہی کہاکرتے تھے اب یہاں یہ چھبتا ہوا سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں جہاں وہ اپنے فوجیوں اور تمام جدید جنگی ساز و سامان کیساتھ ٹوٹے پھوٹے موٹر سائیکلوں پر سوار طالبان کو شکست نہ دے سکے تو وہ یوکرائن میں روس جیسی سُپر پاور کی ریگولر آرمی کو کیسے شکست دیں گے؟ جہاں افغانستان کی طرح اُنکے فوجی بھی نہیں صرف ہتھیارہیں جو وہ وقت پر نہیں پہنچا سکے اور نہ ہی آئندہ دنوں اُ س مقدار میں یوکرائن کووہ تمام اسلحہ پہنچا سکیں گے جن کاوہ مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ جس حساب سے وہ وعدے کررہے ہیں وہ اسے پورا نہیں کرسکتے کیونکہ یوکرائن کو اسکی ضرورتوں کے مطابق اسلحہ مہیا کرنے کا مطلب ہے کہ اپنے پاس اپنے دفاع کیلئے کچھ نہ رکھا جائے اور وہ ایسا نہیں کرسکتے۔

 اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ فرض کرلیتے ہیں کہ نیٹو نے وہ سب کچھ یوکرائن کو دیا جسکی وہ مانگ کررہا ہے اور اس کے بعد بھی روس کو شکست نہ دے سکا تو نیٹو اور یوکرائن مزیدکیا کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو بہ زود یا بہ دیراُن کے سامنے اُٹھے گااور یہی وہ مرحلہ ہوگا جہاں سے مسلے کے حل کیلئے ٹیبل پر بیٹھا جائے گا۔

اگر امریکہ اور اسکے اتحادی جیت جائیں گے تو یقیناً روس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرے گا بلکہ روس کو گرم کیک کی طرح کاٹ کر آپس میں تقسیم کریں گے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکے اور روس جیت گیا تو کیا روس اُن کے ساتھ بیٹھے گا؟اگر بیٹھے تو کن شرائط پر؟

اس وقت روس کے معاملے میں امریکہ کسی بھی وقت سے زیادہ دباؤ اور بہت حد تک تنہائی کا شکار ہے نہ لاطین امریکہ ساتھ ہے نہ انڈیا بات سننے کو تیار ہے نہ عرب پہلے کی طرح حکم کی تعمیل کررہے ہیں اور نہ چین کو ڈرانا ممکن رہاہے اور اتحادی(خاص کر یورپی ممالک) جو بظاہر روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ ہیں اور روس پر پابندیوں کے حق میں ہیں مگر ان کے لیڈراپنے اقدامات سے اپنے عوام  کومطمئن کرنے کامیاب نہیں ہورہے ہیں فرانس سے لیکر جرمنی تک عام لوگ اس جنگ کو مصیبت کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان یورپ کو ہورہا ہے۔مہاجرین کابوجھ،مہنگائی،بیروزگاری،کارخانوں کی بندش یا انکے کام میں تعطل، انرجی بحران سب کے سب یورپ کے حصے میں ہیں۔یورپی ممالک روسی تیل، گیس وفرٹلائزروغیرہ سے بائیکاٹ کی وجہ سے اب تک آٹھ سو ارب ڈالراپنے صارفین کو سبسیڈی دے چکے ہیں مگر اس کے باوجود لوگوں کو بدتریں معاشی مشکلات سے نجات نہیں دیا جا سکا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق جرمنی مستقبل میں توانائی کے مسلے سے نمٹنے کیلئے ایک ٹریلین ڈالر مختص کرنے جارہی ہے یہی صورتحال باقی اکثر یورپی ممالک کی ہے۔

جنگ کاماحول پیدا ہونے کی وجہ سے تمام یورپی ممالک اسلحہ جمع کرنے کی دوڑ میں اربوں ڈالر جھونک رہے ہیں جس سے اُنکے لوگوں کی سوشل لائف بُری طرح متاثر ہورہی ہے اورانکے معیار زندگی پر گہرے منفی ومایوس کن ا ثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ اس جنگ کا سپریم کمانڈر امریکہ ان تمام مسائل سے نہ صرف آزاد ہے بلکہ یہ جنگ اس کیلئے کمائی کا زریعہ ہے جویورپ میں انرجی بحران سے فائدہ اُٹھا کر اپنا گیس اُنھیں مہنگے داموں بیچ کر اربوں ڈالر کما رہا ہے۔

حرف آخر:  یہ جنگ روس کو اشتعال دلا کر یوکرائن میں شروع کی گئی مگر اب یہ یوکرائن سے نیونازیزم اور یوکرائن کو اسلحہ سے پاک کرکے ختم نہیں ہونے والی کیونکہ اب یہ بات روسیوں کیلئے پوری طرح کھل گئی ہے کہ وہ یہ جنگ یوکرائن کی نیونازی رجیم سے نہیں بلکہ نیٹو ا ورامریکہ  کے خلاف لڑ رہے ہیں اور روس میں اس بات بھی غور ہو رہا ہو گا کہ نیٹو اصل میں ویھرمیخت (Wehrmacht) کی جدید شکل ہے۔جس طرح ہٹلر سوویت یونین سے نفرت کرتا تھا نیٹو ممالک بھی ورثے میں وہی نفرت لیکر 1949 میں اس فوجی اتحاد کی تشکیل کرتے ہیں جس کے بنیاد گزار وہی لوگ تھے جنہوں نے جرمنی میں نازیزم کو پھیلانے اور یورپ کے کئی ممالک پر قبضہ اور سوویت یونین پر حملے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس سے لگ بھگ پانچ کروڑ انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ان میں خاص کرلیفٹیننٹ جنرل اُدولف ھیوزنگر( Adolf Heusinger)جو دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کا دست راست اور چیف آف آرمی اسٹاف تھا 1961 سے 1964 تک نیٹو کا چیئرمین تھا۔

گویا جو کام ہٹلر کی نازی مشترکہ فوج(Wehrmacht) نہ کرسکی اب یہ کام نیٹو کے پلیٹ فارم سے کئی یورپی ممالک مل کر کریں گے اب جب بات ایسی ہے تو پھر روس کی اسٹرٹیجی بھی ویسی ہوگی جو دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے مشترکہ فوجی طاقت کو شکست دینے کیلئے سوویت یونین کی ہوئی تھی یعنی دشمن کا جڑسے خاتمہ!

یاد رہے اُس وقت جب سوویت سرخ آرمی نے ہٹلر کو سوویت یونین سے خارج کیا تھا توسوویت قیادت کے سامنے یہ مشورہ بھی سامنے آیا تھا کہ ہم نے ا پنا ملک آزاد کیا اب یورپ جانے جرمنی جانے مگرسوویت قیادت نے اسٹالن کی سربراہی میں نازیزم کو جڑ سے اکھاڑنے اور سقوط برلن کا فیصلہ کیا۔

اس بار روس امریکہ کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ کسی اور بہانے کسی اور جگہ سے روس پرپھر کوئی اوروار کرے بلکہ وہ اس جنگ کو نئے عالمی معاہدات کے بعد ہی ختم کرے گا جہاں امریکہ کی عالمی اجارہ داری ختم ہوگی اور دنیا دوبڑی قوتوں کے درمیاں نئی قائم توازن کے مطابق آگے بڑے گی۔دوسرے لفظوں میں روس ڈی امریکنائزیشن کے ساتھ ہی جنگ کا خاتمہ کرے گا اور روس کیلئے ڈی امریکنائزیشن کا مطلب امریکہ کا خاتمہ نہیں بلکہ اُسکی من مانی ختم کرنا اور اسے عالمی قوانین کے ایسے تابع کرنا ہے جو وہ دنیا سے اُنکے پاسداری کی ”خواہش“ رکھتا ہے۔روسی قیادت کی باتوں سے یہ صاف عیاں ہے کہ وہ آگے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ امریکہ خودکو تمام بین القوامی قوانین سے بالاتر سمجھ کر جو جی میں آئے کرے۔کیونکہ اگر انھوں نے اس ڈی امریکنائزیشن کے مرحلے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہچا یا تو وہ روس کیلئے اور شاید دنیا کیلئے اگلی بار ایسی مصیبت کھڑی کرے جس سے شاید نجات ناممکن ہولہذا روس کی طرف سے امریکہ کو یہ واضع پیغام ہے کہ:

Enough is Enough))

 (ختم شُد)

ھمگام ٹیلیگرام چینل

https://t.me/+tr1VNQc-g94zMDgy

ھمگام واٹس ایپ

https://chat.whatsapp.com/9eHTAoYbZCELHLvNGoRUwE

Previous article
امریکی فوجی سربراہ کا دوره اسرائیل، ایرانی جوہری ہتھیار روکنے پر بار چیت تل ابیب (ھمگام نیوز) امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے ایک غیر اعلانیہ دورے میں جمعہ کے روز اسرائیل کا دورہ کیا جہاں اس نے اسرائیل کے اعلیٰ سکیورٹی حکام کے ساتھ ایران اور دیگر سکیورٹی امور پر بات چیت کی۔ جنرل ملی نے تل ابیب میں کریا فوجی اڈے پر اپنے اسرائیلی ہم منصب لیفٹیننٹ جنرل ہرزل لیوی، وزیر دفاع یواف گیلنٹ اور دیگر اعلیٰ سکیورٹی حکام سے ملاقات کی۔ اسرائیلی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں فریقوں نے “ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔” اسرائیلی وزیر دفاع یواف گیلنٹ نے جنرل ملی کو بتایا: “ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے مسلسل تعاون کی ضرورت ہے۔” جنرل ملی نے اسرائیل میں کوئی عوامی تبصرہ نہیں کیا، اور ان کے ترجمان نے کہا کہ مسٹر ملی نے اسرائیلی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل لیوی سے علاقائی سلامتی کے مسائل اور ایران کے خطرات سے دفاع کے لیے رابطہ کاری کے بارے میں بات کی۔ امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا دورہ اسرائیل ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حال ہی میں امریکی حکام نے یورپی ممالک کے دفاعی حکام سے بھی ایسی ہی ملاقاتیں کی ہیں۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بھی اگلے ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ہیں جن میں اردن، اسرائیل اور مصر شامل ہیں۔ پینٹاگون کے حکام ایران کے بارے میں مشترکہ علاقائی حکمت عملی پر اپنے اسرائیلی اور عرب ہم منصبوں کے ساتھ ہم آہنگی کے خواہاں ہیں۔ ایکسس ویب سائٹ نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل کے اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر اور قومی سلامتی کے مشیر تساہی ہانگبی اگلے ہفتے کے اوائل میں واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔ یہ ملاقاتیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب ایران کے ساتھ جب مغربی ممالک جوہری پروگرام پر تناؤ بڑھ گیا ہے اور فردو جوہری تنصیب میں 84 فیصد یورینیم کی افزودگی کے آثار دریافت ہونے کے اعلان کے بعد یہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
Next article
Exit mobile version