Homeآرٹیکلزمیر قادر ،دو دہائیوں کے یاداشت اور جدوجہدکا سرسری جائزہ۔ تحریر: سعید...

میر قادر ،دو دہائیوں کے یاداشت اور جدوجہدکا سرسری جائزہ۔ تحریر: سعید یوسف بلوچ

ابتدا ان لفظوں سے کہ زندگی کوجس طرح گزارنا چاہے وہ گزرہی جائے گا لیکن کسی فکر اور نظریہ کے بغیر بامقصد نہیں ہوگا۔ایک نظریاتی انسان کاقد اس وقت بلند ہوتاہے جب وہ اپنے موقف پر آخری دم تک بغیر کسی تذبذب اور پچھتاوے کے ثابت قدم رہتاہے۔ غلامی ایک افیون اور ایک سرطان ہے جو نہ صرف ہماری شناخت ہماری حیثیت ہماری تہذیب و تمدن ،کلچر و زبان بلکہ مجموعی طور پر ہماری بقاء اور ہماری قومی شعورکے لئے خطرہ ہے ۔قربانی ،تکالیف اور اذیتوں سے آنکھیں موند کر جب ہم اپنی جان بخشی آسودگی مراعاتی زندگی کو سامنے رکھیں گے توزندگی اس طرح بھی گزر جائے گی لیکن یہ ہماری اجتماعی موت پر ایک سائن کی مترادف ہوگی جس سے تاریخ ہمیں اچھے لفظوں سے یاد نہیں کریگی۔

3ستمبر کی رات کماش کی ناگہانی وفات ہمارے وجود کو ہلانے کے لئے کافی تھا ۔ایک گہرے صدمہ سے کم نہیں تھا۔ کم از کم میرے لئے کیونکہ میں بیس سال سے انہیں جانتاہوں ۔میرے پاس ان کے دو دہائیوں کے یاداشت اور جدوجہد ہے۔ ان کی گفتگو ان کی مباحثہ ان کے فکر و خیالات جدوجہد ان کی عمل ان کی سادگی ان کی خاکساری ان کی عاجزی ان کا بے لوث اور انتھک کرداران کی تذبذب سے پاک موقف اور ان کی سنگتی، ان کی مہر ،ان کاخلوص جو میرے پاس میراث کے طور پر موجود ہے ۔

یہ غم جو اس رات نے دیاہے
یہ غم سحر کا یقین بناہے
یقین جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے

عنوان بہت وسیع اور جامع ہے جس میں کماش کے زندگی ،حالات ،فکر اور نظریات قومی جدوجہد کا تناظر میں اس پیمانے پر نہیں سمیٹے جاسکتے جس کے لئے وقت بہت درکارہے ۔اس مختصراً دورانیہ میں کوشش کروں گا کہ چیدہ چیدہ نکات کو سامنے رکھوں تاکہ انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا حق ادا ہوسکے کیونکہ کسی جہد کار یا قومی راہشوں کی زندگی اور جدوجہد کی کلی اور جزوی پہلوئوں پر گفتگو کرنے کے لے وقت اور حالات درکار ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس حالات اس پیمانے پر سازگار نہیں کہ ہم آزادی اظہار کے لئے بغیر کسی گھٹن کے کھلی طور پر بات کرسکیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میر قادربلوچ مسقط کے اپنے پرتعیش زندگی کو اس لئے خیر باد کرتاہے کہ بلوچستان میں نوآبادیاتی تسلط کے خلاف بلوچ قوم ایک بار پھرخون کی سرخی کی طرح یکجاء منظم اور مشترک ہورہے ہیں ۔بلوچستان میں اٹھنے والی جدوجہد کا ابھار انہیں سمندر پار واپس لاتی ہے، انہیں وطن کا درد دکھ غلامی اور قومی بزگی کا احساس آمادہ کرتاہے کہ وہ قومی جدوجہد میں شامل ہوکر اپنا حصہ ادا کرے ۔وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کا حصہ بن کرسیاسی و جمہوری جدوجہد جاری رکھتاہے اور اس قومی و انقلابی پراسس کا ایک مضبوط سیاسی معمار بن جاتاہے ۔

میر قادر بلوچ سے میری اولین ملاقات نوشکی میں ایک سیمینار میں ہوا جب وہاں مجھے بی ایس او کی جانب سے ایک مہمان مقالہ نگار کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔سیمینار کے اختتام پر بہت ساری نظریاتی اور قوم دوست ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتوں کا شرف ملا اور ان میں سے ایک میرصاحب بھی تھا جنہیں کسی قومی اجتماع، احتجاجی مظاہرے یا سیاسی دیوان میں کھبی بھی غیر حاضر نہیں پایا۔وہ ہمیشہ فرنٹ لائن پہ ہوتی تھی اور جب انہیں تقریر کے لئے مدعو کیاجاتا تو وہ ایک بے باک راہنماء کی طرح پر اپنی بات ڈنکے کی چھوٹ پر رکھتے تھے ۔بغیر کسی مصلحت وڈپلومیسی کے بات کرتا تھا۔ الفاظ ہمیشہ سادہ تھے، کوئی پولیٹیکل اصطلاح استعما ل نہیں کرتے تھے۔ بہت سے ساتھی ان سے اس بات پر اختلاف رکھتے تھے کہ آپ بہت زیادہ جذباتی تقریر کرتے ہو لیکن اس نے اپنا انداز اور جوش خطابت کا ڈھنگ نہیں بدلا۔ ان کے لہجے میں گرج اورجرائت تھی ۔وہ جب بھی بولتا دلوں کو چھو لیتا جو کالونیلسٹ کے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتا وہ دوران جدوجہد متعدد بار جیل گئے۔ سالوں تک قید وبند میں گزاری لیکن اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔

ان پر کئی قسم کے سیاسی مقدمات قائم کئے گئے جن میں اشتعال انگیزی اور عوام کو اکسانے اوربلوچ قومی آزادی کی جدوجہد اور اٹل موقف سر فہرست رہے۔اس نے بعد ازاں بلوچ وطن موومنٹ کے نام سے ایک پلیٹ فار م کی تشکیل کی اور قومی جدوجہد میں سیاسی حصہ داری کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ بعدازاں 2013کے آخری مہینوں میں بلوچ سالویشن فرنٹ کے نام سے الائنس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا او ر بلوچ سالویشن فرنٹ کے جنرل سیکریٹری منتخب کئے گئے جو تین بلوچ تنظیموں کا ایک مشترکہ اتحادثلاثہ تھا۔

وہ اپنی وفات کے آخری دن تک قومی جدوجہد سے والہانہ وابسطگی کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔اس اپنی موقف ،نظریات اور سیاسی عمل میں کھبی بھی کمزوری نہیں دکھائی بلکہ وہ قومی خود اختیاری کے جدوجہد میں سمجھوتہ کو ضمیر پر بار گراں سمجھ کر اپنی وطن مٹی اور عوام سے وفادار ی کے سوگندھ پر قائم رہے۔ وہ بلوچ ازم اور فکر خیر بخش کا بڑا پاسدار تھا وہ نیشنلزم کو اپنا اوڑھنا بچھونا اورقومی سیاست کو اپنا پیشہ سمجھتا تھا۔جہاں تک میں جانتاہوں کہ وہ ایک قوم دوست وطن دوست اور محب بلوچ تھا بلکہ پورا بلوچ جانتا ہے کہ ان کی زندگی ،جدوجہد ،فکر و خیالات تعلیمات بلوچ عوام کے سامنے ہیں کہ ان کی پوری زندگی قومی جدوجہد قومی سوال اور قومی آزادی کی پاسداری میں گزری۔ وہ بطور انسان ایک خوبصورت قد اور شخصیت کا مالک تھا۔

میرے لئے وہ ہمیشہ ایک ناقابل فراموش دوست اور نظریاتی سنگت کے طور پر رہیگا۔اگر چہ ان کی موت مجھ سمیت تمام قوم دوست وطن دوست نظریاتی ساتھیوں کے لئے گہرے صدمے کا باعث بنی ہے لیکن جس جدوجہد کے لئے اس نے اپنی ساری زندگی وقف کی وہ جدوجہد بغیر کسی ٹہرائو کے جاری رہیگا۔ جدوجہد کے اس سفر مین اگرچہ اس کے لئے تکالیف کے انبار کھڑی کردی گئیں لیکن مین نے دیکھا کہ اس کے اعصاب کھبی بھی کمزور نہ پڑے۔ آج اگر ان کا جسمانی وجود نہ رہا لیکن ان کے فکر و نظریات جدوجہد آنے والے نسلوں کی شعوری بلندی میں ضرور کردار ادا کریں گے۔ ایسے شخصیات کا چلے جانا اگر چہ المیہ سے کم نہیں لیکن میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان کا یہ خواب ضرور پورا ہوگاجس میں ایک محکوم انسان ایک استحصال انسان کے غلامی سے نجات حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگا۔

میر صاحب جو دل کی آخری دھڑکن اور اپنی پوری شعوری زندگی بلوچ قومی جدوجہد کے لئے وقف کی انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین حق ان کی راستہ جدوجہد اور نظریات کو عملی جامہ پہنانے سے ادا ہوگا۔

میں آخر میں ایک بار پھر وہی الفاظ دہرائوں گا کہ اس بہادر شائستہ اور عاجز شخصیت کو حسب روایت رخصتی کے بعدصرف دیوتا نہ بنایاجائے بلکہ ان کے زندہ نظریات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ وہ خیالات جو میر صاحب کے زندگی کا رخ ہی بدل دیئے تھے ان کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لئے انہوں نے ساری زندگی جدوجہد میں رہی تکالیف سہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، جلاء وطن بھی ہوئے لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی انہیں پیچھے ہٹنے کا خیال نہیں آیا۔زمینی حقائق کو جتنا بھی دبایا جائے مگر سچ کو مٹایا نہیں جاسکتا،مسخ نہیں کیا جاسکتا۔زمینی سچ کی لکھائی سیاہی کی بڑی دواتوں سے شروع ہوتی ہے اور پھر مقدس خون پر ختم ہوتی ہے ۔

زمینی حقائق میگنیشیم کی چمک سے زیادہ گرم اور روشن ہوجاتاہے یہ زمینی آسمان کے اوپر ایک راہنماء ستارہ بن جاتاہے جو اس کی روشنی کے نیچے جدوجہد کرتے ہیں ۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا وہ یہ سحر تو نہیں
ابھی چراغ سر راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

Exit mobile version