Homeخبریںنور جان بلوچ نے خود کشی نہیں کی قتل کیا گیا۔ بلوچ...

نور جان بلوچ نے خود کشی نہیں کی قتل کیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

کراچی(ہمگام نیوز)بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ نور جان بلوچ کی خودکشی نہیں بلکہ ایک قتل ہے کیوں کہ نور جان نے ڈیپریشن میں نہیں بلکہ اپنی عزت اور ناموس کی خاطر خود کو سولی پر چڑھا دیا، جس کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہئے اور زمہ داروں کو سخت سزا دینی چاہئے۔

نور جان ولد ہارون سکنہ ہارون ڈن آواران نے اپنی لڑکی مسمات نازل کی منگنی کسی بلوچ جہدکار کے ساتھ کی تھی۔ جس پر کچھ اہلکاروں نے نورجان کو دھمکی دی کہ اگر آپ کی بیٹی کی شادی ہوئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ چند دن پہلے نورجان کے بیٹی کی شادی ہوئی تھی۔

بدھ کے روز نورجان اور نورجان کے بیٹے کو حراست میں لے کر آواران کے کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان پر انتہائی تشدد کیا گیا،ہولناک تشدد سے نورجان کے دونوں گردے ناکارہ اور ایک پاوں ٹوٹ گیا۔ نورجان کو اس شرط پر رہا کہ لڑکی کو کیمپ میں حاضر کیا جائے۔

کل علی الصبح نورجان نے ہارون ڈن آواران میں ایک درخت سے لٹک کر خودکشی کر لی اور خود کشی سے پہلے انھوں نے پیغام چھوڑا کہ “لڑکی آپ کو پیش نہیں کرسکتا اس کے بدلے میں میرا لاش لے کر جائیں ۔”

‎بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، کچ روز قبل جب کراچی یونیورسٹی کے طالب علم یاسر ظفر عید منانے اپنے گاؤں (بلیدہ کیچ) پہنچتے ہیں تو ان کو کچھ مسلح لوگ گولیوں سے چھلنی کر کے یاسر کی لاش پھینک دیتے ہیں اور ذرائع کے مطابق یاسر کے گھر والوں کو اتنا ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے کہ وہ پولیس کو اپنا بیان بھی ریکارڈ نہیں کروا رہے ہیں۔

‎سانحہ ڈنّک کے بعد بلوچستان میں متواتر اس طرح کے واقع رونما ہوتے آرہے ہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) ان واقعات کی شدید مذمت کرتی ہے اور حکومت بلوچستان و حکومت پاکستان سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ کب تک بلوچستان کو اس طرح کے واقعات
کا سامنا کرنا پڑھے گا؟

‎بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) حکومت بلوچستان بشمول حکومت پاکستان سے اپیل کرتی ہے کہ ان واقعات کی صاف و شفاف تفتیش کی جائے اور یاسر کے قاتلوں سمیت نورجان کو موت کے دہانے پر مجبور کرنے والے قاتلوں کو بھی سخت سے سخت سزا دی جائے۔

Exit mobile version