رپورٹ: آرچن بلوچ
پاکستان سیاسی اور سماجی عدم استحکام کے ساتھ بدستور سخت اقتصادی بحران کا شکار ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی جانب سے 3 بلین ڈالر کا پروگرام اگلے ماہ ختم ہو جائے گا ایک نئے پروگرام کو حاصل کرنا نئی انتظامیہ کی ترجیحات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 8 بلین ڈالر ہیں جو بمشکل دو ماہ کی ضروری درآمدات کو پورا کر پاتے ہیں۔
مرکزی بینک کے سابق گورنر مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ اب کوئی متبادل نہیں رہا۔ آئی ایم ایف سے مزید قرض لینا اب ضروری ہوگیا ہے یہ اس لیئے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر آنے والی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔
پاکستان کے قرضے اسکی جی ڈی پی کے تناسب سے پہلے ہی 70 فیصد سے زیادہ ہیں اور آئی ایم ایف اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کا تخمینہ ہے کہ قرض پر سود کی ادائیگی اس سال حکومت کی آمدنی کا 60 فیصد لے جائے گی۔ یہ دنیا کی کسی بھی بڑی معیشت کا بدترین تناسب ہے۔
تجزیہ کار فرم ٹیلیمر کا کہنا ہے کہ ملک کا مسئلہ بنیادی طور پر گھریلو قرضہ ہے جس کی حجم 85 فیصد سود سمیت 60 فیصد بنتا ہے۔ بیرونی قرضوں کی بڑی تعداد ڈالر میں ہے۔ ٹیکس اور گیس کے نرخوں میں اضافے اور روپے کی کرنسی میں زبردست گراوٹ کے امتزاج نے سال بہ سال افراط زر کو تقریباً 30 فیصد تک دھکیل دیا ہے۔
جبکہ اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک اور ایڈوائزری فرم، طبلب نے پاکستان کے قرضوں کی صورت حال کے بارے میں ایک سخت انتباہ جاری کیا ہے اور اسے ایک “بڑھتی ہوئی آگ” کے طور پر بیان کیا ہے جو کہ ناقابل قابو ہو چکی ہے۔ قرضوں کی یہ تشخیص آئی ایم ایف کے تجزیہ کے مقابلے میں زیادہ تشویشناک ہےجس نے ملک کے واجبات کو بارڈرلائن پر کھڑا لکھا تھا اور کہا تھا کہ یہ قابل انتظام سمجھا تھا۔
ذیشان صلاح الدین اور عمار حبیب خان کی طرف سے اس رپورٹ میں قرضوں کے “خطرناک” پروفائل پر روشنی ڈالی ہے، جس میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ پاکستان ایک “ناگزیر ڈیفالٹ” کی طرف بڑھ رہا ہے۔ طبلب کی رپورٹ پاکستان کے قرضوں اور واجبات کے حوالے سے ایک تشویشناک رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔ بیرونی قرضے اور واجبات تقریباً دوگنا ہو کر 125 بلین ڈالر ہو گئے ہیں۔
پاکستانی معیشت کے دگرگوں صورتحال کے تناظر میں قیصربنگالی کی باتیں قابل غور ہیں
https://fb.watch/qBMPJwr48u/