یکشنبه, نوومبر 24, 2024
Homeخبریںکابل حکومت سے مذاکرات کرنے والی ٹیم مکمل طور پر بااختیار ہے:...

کابل حکومت سے مذاکرات کرنے والی ٹیم مکمل طور پر بااختیار ہے: طالبان

کابل(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق افغان طالبان نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے لیے فیصلہ سازی کا کلی اختیار 21 رکنی مذاکراتی ٹیم کو دیا گیا ہے جب کہ کابل حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔

افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے رواں ہفتے ہی شیر محمد عباس استنکزئی کی سربراہی میں 21 رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی ہے جس میں افغان طالبان کی رہبر شوریٰ کے 13 ارکان بھی شامل ہیں۔

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ مرکزی رہبر شوریٰ سے 65 فیصد اراکین کو مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنانے کا مقصد ٹیم کو بااختیار بنانا ہے تاکہ امن مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ سکیں۔

مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیر محمد عباس استنکزئی نے بتایا کہ طالبان قیادت نے اس مذاکراتی ٹیم کو تمام معاملات کو اپنے طور پر حل کرنے کا اختیار دیا ہے تاکہ امن کی راہ میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہ ہو۔
ان کے بقول طالبان کے برعکس کابل حکومت کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی بات چیت کے بعد اپنی تمام سفارشات حکومت کے سامنے رکھے گی۔ تاہم طالبان کی ٹیم مذاکرات کی میز پر ہی تمام فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی ہے۔یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی طالبان وفد کی سربراہی شیر عباس استنکزئی نے کی تھی۔

اُن کے مطابق امن مذاکرات کا عمل مکمل ہونے کے بعد وہ پیشرفت سے طالبان چیف ملا ہیبت اللہ کو آگاہ کریں گے۔ طالبان کی ٹیم ملا ہیبت اللہ کے علاوہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس ٹیم کا اختیار بین الافغان امن مذاکرات، امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر عمل درآمد، قیدیوں کی رہائی اور تمام امور پر بات چیت ہے۔

عباس استنکزئی نے بتایا کہ مذاکراتی ٹیم کے نمائندگان میں شیخ عبدالحکیم بھی شامل ہیں جو اس وقت طالبان تحریک میں بطور چیف جسٹس کام کر رہے ہیں۔

ان کے بقول مولوی عبدالکبیر، مولوی نور محمد ثاقب، ملا محمد زاہد احمد زئی، ملا شرین اخوند، ملا عبدالطیف منصور، قاری دین محمد، ملا عبدالسلام حنفی، ملا عبدالمنان عمری، شیخ محمد قاسم ترکمن، ملا محمد فاضل مظلوم، ملا نور اللہ نوری، ملا عبدالحق وسیق، مولوی مطیع الحق خالص، انس حقانی، ملا محمد نبی عمری، محمد سہیل شاہین، ملا خیر اللہ خیرخوا، مولوی شہاب الدین اور مولوی فرید ہی بین الافغان مذاکراتی ٹیم میں شامل ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت طالبان اور کابل حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات مارچ میں شروع ہونا تھے لیکن قیدیوں کے تبادلے پر ڈیڈلاک کے باعث اب تک یہ مذاکرات شروع نہیں ہو سکے ہیں۔

طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ امن معاہدے کے تحت طالبان نے افغان حکومت کے تمام ایک ہزار قیدی رہا کر دیے ہیں جب کہ کابل انتظامیہ نے طالبان کی جانب سے پانچ ہزار قیدیوں کی فہرست کے مطابق اب تک صرف 4680 طالبان رہا کیے ہیں۔

عباس استنکزئی کے مطابق امن معاہدے کی رُو سے اگر 10 مارچ تک قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہو جاتا تو اب تک بہت سے دو طرفہ مسائل حل ہو چکے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان قیادت جلد از جلد بین الافغان امن مذاکرات شروع کرنے کی خواہش مند ہے تاکہ افغانستان میں جنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے اور ایسی اسلامی حکومت قائم کی جائے جو افغانستان کی اکثریت کے لیے قابلِ قبول ہو۔

افغان صدر اشرف غنی نے سنگین جرائم میں ملوث طالبان قیدیوں کی رہائی پر لویا جرگہ بلوایا تھا جس میں مشترکہ طور پر تمام طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی گئی تھی۔ تاہم اس کے باوجود باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی تاخیر کا شکار ہے۔

دوسری جانب فرانس اور آسٹریلیا نے بعض طالبان قیدیوں کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ مذکورہ ملکوں کا کہنا تھا کہ یہ قیدی افغانستان میں تعینات اُن کے اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھے۔

عباس استنکزئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن افراد نے آسٹریلوی اور فرانسیسی فوجیوں کو مارا ہے وہ طالبان تحریک کا حصہ نہیں تھے۔ ان کے بقول وہ یا تو افغان نیشنل آرمی یا پولیس کا حصہ تھے، لیکن چونکہ وہ افغانستان کے شہری ہیں اس لیے طالبان ان کی حمایت کرتے ہیں۔
افغان طالبان کے رہنما نے بتایا کہ طالبان نے امن معاہدے سے دو ماہ قبل 5000 طالبان قیدیوں کی فہرست امریکہ کو دی تھی اور امریکہ کی تصدیق کے بعد انہوں نے وہی فہرست افغان حکومت کے ساتھ شئیر کی اور انھوں نے بھی اس کی تائید کی۔

اُن کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر امریکہ یا افغان حکومت سے کوئی اختلاف نہیں تھا اور اسی لیے امن معاہدے میں بین الافغان امن مذاکرات کی تاریخ 10 مارچ مقرر کی گئی تھی۔ امن معاہدے کے مطابق مذاکرت سے قبل افغان حکومت کو تمام قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔استنکزئی نے بین الافغان امن مذاکرات کو اپنے تمام قیدیوں کی رہائی سے مشروط قرار دیا ہے۔

افغانستان کی قومی سلامتی کونسل میں ڈائریکٹر برائے امن اور شہریوں کے تحفظ کے عہدے پر فائز سید انتظار خادم کے مطابق جن چھ طالبان کی رہائی پر فرانس اور آسٹریلیا کی حکومتیں اعتراض کر رہیں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ جو چار ہزار سے زائد قیدی افغان حکومت نے رہا کیے ہیں وہ بھی افغانستان کی لڑائی میں ملوث تھے۔ ان کی رہائی پر تو فرانس اور آسٹریلیا نے اعتراض نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ ان افراد کی رہائی میں رکاوٹ امن عمل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

انتظار خادم نے مزید بتایا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ یہ دونوں حکومتیں اپنے اعتراضات پر غور کریں تاکہ افغانستان میں امن کے حوالے سے ایک نئے باب کی شروعات ہو سکے۔دوسری جانب افغان حکومت نے چند ماہ قبل ہی اپنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا تھا۔

سید انتظار خادم کے مطابق بین الافغان امن مذاکرات کے لیے افغانستان نے تمام فریقوں کے اتفاق رائے سے 21 رکنی ٹیم نامزد کی ہے۔ جس کی سربراہی افغانستان کے انٹیلی جنس کے سابق سربراہ محمد معصوم استنکزئی کریں گے۔انتظار خادم کے مطابق یہ ایک جامع ٹیم ہے اور ہر طرح کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امن مذاکرات شروع کرنے اور منطقی انجام پر پہنچنے میں وقت ضرور لگے گا کیوں کہ جنگ کو صلح میں تبدیل کرنا، لوگوں کے ہاتھوں سے بندوق لے کر انہیں قلم کی طرف راغب کرنا، لوگوں کے ذہنوں میں دشمنی کے بجائے محبت کا درس دینا ہے۔ اس کے لیے یقیناً وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کی یہ کوشش ہوگی کہ یہ کام اگر ہفتوں میں نہ سہی تو مہینوں میں ضرور ہو جائے کیوں کہ اس عمل میں جتنی تاخیر ہو گی امن کے مخالفین اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ انتظار خادم کے مطابق افغان حکومت کی کوشش ہے کہ امن مذاکرات جلد سے جلد منطقی انجام تک پہنچائے جائیں کیوں کہ افغان عوام نے بہت زیادہ تشدد دیکھ لیا ہے اور اب انہیں امن دیکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا حصہ نہیں تھی۔ اگر دیکھا جائے تو ان کے درمیان بھی مذاکرات کئی مہینوں تک جاری رہے تھے۔ حالانکہ طالبان اور امریکہ کے درمیان زیادہ پیچیدہ معاملات نہیں تھے۔
ان کے بقول افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ حکومتی مسائل، حکومتی نظام، حکومت میں شراکت داری، بنیادی حقوق، اسلامی حکومت کا طریقہ کار اور جمہوریت سمیت مختلف مسائل پر بات چیت ہو گی۔

طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایک دن میں تمام قیدیوں کی رہائی ممکن نہ تھی کیونکہ افغانستان میں قانونی حکومت ہے اور قیدیوں کی رہائی کے لیے کچھ طریقہ کار اور ضابطے ہوتے ہیں جن کے تحت انہیں رہا کیا جا رہا ہے۔

سید انتظار خادم نے کہا کہ اگر صدیوں جنگ لڑی جائے تو بھی حل کے لیے مذاکرات کی میز پر لازمی آنا ہوتا ہے اور اس سے قبل کہ افغانستان کی تمام عورتیں بیوہ ہو جائیں، جلد از جلد بین الافغان امن کے بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز