سمیر ٹاٹا، ایک جیو پولیٹیکل ماہر ہونے کیساتھ ساتھ انٹرنیشنل پولیٹیکل رِسک اینالیٹِکس کا بانی اور صدر بھی ہے، برطانیہ کے مشہور تھنک ٹینک نشریاتی ادارہ رویال یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں شائع کردہ اپنے ایک کمنٹری میں پیش گوئی کرتا ہے کہ 2025 سے 2030 تک بھارت اور چین کے مابین مشرقی لداخ میں جنگ ہونے کے قوی امکانات ظہور پذیر ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ بھارت اور چین دونوں ریاستوں کے قومی مفادات کے تناظر میں مشرقی لداخ کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مشرقی لداخ چین کیلئے توانائی سیکیورٹی کا ایک بڑا محرک ہے جبکہ بھارت کیلئے علاقائی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ وہ 2025 سے 2030 کا درمیانہ عرصہ چین کیلئے ایک سنہری موقع اور پلہ باری اور بھارت کیلئے کمزوری گردانتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دو دشمنوں کے درمیان کوئی رابطہ یا مفاہمتی عمل نہیں، اس لیئے، روایتی جنگ کیساتھ جوہری جنگ کے امکانات یقینی صورتحال میں بدل رہے ہیں۔
وہ اپنے کمنٹری میں مزید کہتا ہے کہ چین دراصل مشرقی لداخ کو توانائی سیکورٹی کے تناظر میں اہم گردانتا ہے کیونکہ چین کی سیاسی، اقتصادی اور عسکری طاقت توانائی سیکیورٹی کیساتھ وابستہ ہے اور وہ اپنی توانائی کیلئے تیل اور گیس برآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ اب مشرقی لداخ وہ واحد راستہ یا علاقہ ہے جس سے کوئی بھی دشمن قوت کاشغر پر چڑھائی کرکے قبضہ کرسکتا ہے، جوکہ چین کا سب سے اہم توانائی کا اڈا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ چین ایران کو کاشغر سے جوڑنے ملانے کیلئے زمینی پائپ لائن کا منصوبہ بناچکا ہے جہاں سے سی پیک کے زریعے وہ تیل اور گیس در آمد کرے گا۔ جس سے چین کا بحر ہند اور بحر الکاہل میں بحری راستوں پر انحصار کم اور دوگنا فائدہ ہوگا۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ اگر چین اپنی توانائی سیکورٹی کے لیئے زمینی راستوں پر زور دے گا، تو اس کی زمینی پائپ لائن یا انفراسٹرکچر دشمن طاقتوں کی عسکری پہنچ اور آسان ہدف سے باہر ہونی چائیے۔ یعنی کہ چین کا مشرقی لداخ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے سے دشمن قوتوں کی عسکری اثر و رسوخ ختم ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس، مشرقی لداخ چین کیلئے کمزوری کا باعث اور اس کی توانائی کا اڈہ یعنی کہ کاشغر آسان ہدف ثابت ہوگا۔
جبکہ دوسری جانب مشرقی لداخ کے حوالے سے بھارت کے تناظر کو سمجھنا مشکل ہے کیونکہ یہ ایک پردے میں لپٹا ہوا ہے جس میں بیان بازی اور محتاط عمل کی پٹی ہے۔ اگرچہ بھارت مشرقی لداخ کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے تاہم، آج تک سرکاری سطح پر اس کے واضح حدود کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور نہ سرکاری سطح پر اس کا کوئی درست ادراک ہے۔
اس کے علاوہ، اس کا کہنا ہے کہ بھارت کو جس تلخ حقیقت کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ مستقبل قریب تک چین کے حق میں طاقت کا غیر متناسب توازن برقرار رہے گا۔ بھارت عسکری ہتھیار کیلئے زیادہ تر روس پر انحصار کرتا ہے۔ چین کیساتھ جنگ کی صورت میں وہ روس پر مستقل بنیادوں میں انحصار نہیں کرسکتا کیونکہ روس خود اپنی معاشی تحفظ کیلئے چین پر انحصار کررہا ہے جبکہ امریکہ پہلے سے روس کے خلاف یوکرین اور غزہ کے خلاف اسرائیل جنگ میں عسکری ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ جس سے وہ بھارت کو بڑی مقدار میں معاونت کرنے سے قاصر رہے گا۔ یقینی طور پر باہمی بقائے وجود کیلئے راستہ تلاش کرنا چین اور بھارت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
تاہم، بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل نراونے مذکورہ بالا جیو پولیٹیکل ماہر کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ 2020 میں گلون کشمکش کے بعد، چین کو بھارت کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس لیئے، بھارت پر اثرانداز ہونا آسان کام نہیں اور تائیوان کے مسئلہ حل کرنے سے پہلے وہ دوسری طرف محاز کھولنے کی ہمت نہیں کرے گا کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا، تو تائیوان اس کے ہاتھ سے جائے گا جس کو اس کی قومی ترجیحات میں اولین حیثیت ہے۔ بھلا وہ اپنی ترجیحات میں تبدیلی کیوں چاہے گا؟
اس کے علاوہ، ثناہ ہاشمی، جو کہ تائیوان میں ایک اسکالر اور پالیسی ماہر ہے، کہتی ہے کہ “چین کے اپنے بہت سے مسائل ہیں جن سے ان کو نمٹنا ہے جیسے کہ معاشی پریشانیاں جیسے سست معیشت اور ایف ڈی آئی میں کمی۔ بہت سی غیر ملکی کمپنیاں پہلے ہی چین میں اپنے کاروبار کے بارے میں فکر مند ہیں۔ جنگ اسے مزید خراب کر دے گی۔”
ہمگام کی ٹیم نے بلوچ قومی مفادات اور مستقبل کے خاکہ کے حوالے سے بلوچ زانتکار وں کی راۓ معلوم کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ آنے والے دھاہی میں اس ریجن میں بہت سے مسلہ مسائل ہونے کے امکانات ہیں جس میں بلو چستان کی بڑی اہمیت ہے اور بلوچستان بحر بلوچ میں نمایاں رول ادا کرسکتے ہیں بلوچستان کی قومی جہد کے ھوالے بھی بہت سے اچھے آثار دیکھای دینگے اس لیے بہتر ہے کہ بلوچ قوم ایک قومی سوچ اور پروگرام کے تحت صف بندی کریں۔