Homeخبریں2015 میں ایک لاکھ ستر ہزار افراد مسلح تنازعات کا شکار ہوئے

2015 میں ایک لاکھ ستر ہزار افراد مسلح تنازعات کا شکار ہوئے

بون (ہمگام نیوز) سال دو ہزار پندرہ میں تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار افراد دنیا بھر میں جاری مختلف تنازعات کا شکار ہوئے۔ یہ بات ایک تازہ جائزے سے سامنے آئی ہے۔دنیا بھر میں تنازعات کی وجہ سے جان گنوانے والے افراد کے بارے میں یہ جائزہ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز’ آئی آئی ایس ایس‘ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر یہ اس ادارے کی دوسری رپورٹ ہے۔ تاہم اس میں پچھلی رپورٹ کے مقابلے کونسی اہم پیش رفت سامنے آئی ہیں؟مسلح تنازعات کے گزشتہ جائزے یعنی 2014ء میں یہ واضح ہوا تھا کہ دنیا بھر میں خونریز تنازعات کی تعداد میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے تاہم دوسری جانب ان تنازعات میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھی ہے۔ تازہ جائزے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافے کا رجحان کم ہوا ہے۔2014ء میں مرنے والی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار تھی جبکہ 2015 میں یہ تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے نصف ہلاک ہونے والوں کا تعلق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطے سے ہے۔ شامی خانہ جنگی ہی ان میں ایک تہائی اموات کی ذمہ دار ہے۔دوسری جانب اسلامک اسٹیٹ کی بات کی جائے تو اس تنظیم کی جگہ یا مرکز تبدیل ہوا ہے۔ مثال کے طور پر شام اور عراق میں آئی ایس کو کئی محاذوں پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ لیبیا میں یہ تنظیم اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئی ہے۔گزشتہ جائزے میں 42 تنازعات کا ذکر تھا جبکہ تازہ جائزے میں 37 کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک طرح سے پر امن دنیا مں رہ رہے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ شمالی افریقہ اور مشرقی وسطی میں جاری تنازعات ابھی اپنے حل سے بالکل اتنے ہی فاصلے پر ہیں، جیسے 2014ء میں تھے۔ اس کے علاوہ وسطی امریکا اور میکسیکو کے حالات کو بھی مایوس کن ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ صرف کولمبیا ایک ایسا ملک ہے، جہاں حکومت اور فارک باغیوں کے مابین امن بات چیت کی بنا پر کشیدگی کم ہوئی ہے۔ مسلح تنازعات کی زد میں زیادہ تر ممالک کا تعلق لاطینی امریکا سے ہے۔ یہ خطہ جرائم پیشہ اور منظم گروپوں کے ساتھ ساتھ مختلف مسلح تنازعات کی زد میں بھی ہے۔

Exit mobile version