Homeآرٹیکلزبرمش بیداری کی تحریک اور درست سمت (تحریر آرچن بلوچ)

برمش بیداری کی تحریک اور درست سمت (تحریر آرچن بلوچ)

26 مئی کی منحوس رات نے بی بی ملک ناز کی زندگی ان سے چھین لی اور ساتھ اس کی بیٹی برمش کو زخمی اور یتیم بھی کردیا مگر اس خونی واقع نے بلوچستان کی تاریخ کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ ڈنک کے خونی واقعے نے قبضہ گیر کی ان تمام مکروہ سفاکیت پر مبنی منصوبوں کی عمارت کو ریت کے گروندوں کی طرح ڈھا دیا۔ جس کا نہ صرف دشمن کو بلکہ خود بلوچ عوام کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ اس واقع سے ایک مقبول قومی تحریک کا طوفانی ابھار خودبخود اٹھ کر بلوچستان کے تمام شہروں اور قصبوں کو یکساں اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اگر اس تحریک کے وھیکل، محرکات اورcatalysts کو دیکھیں تو اس طرح کی spontaneous تحریکی ابھار بعید از قیاس نہیں۔ دہائیوں جاری پاکستان کی فوجی جارحیت اور بلوچوں کی مزاحمت ایسے تسلسل ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں، اسلئے برطانیہ کے مشہور وزیرآعظم ہارالڈ ویلسن نے کہا تھا کہ سیاست میں ایک ہفتہ اک بہت لمبی مدت ہوتی ہے۔
پاکستان کی پنجابی فوجی حکمرانوں نے مقبوضہ بلوچستان میں پرامن جمہوری تحریکوں کواستحکام بخشنے کبھی نہیں دیا ہر مرحلے پر قومپرست پارٹیوں میں گھس کر بلیک میلنگ دھمکی اور توڑپھوڑ کے زریعے انکو ناکام بنایا اور انکو فرصت نہیں دی کہ وہ سیاسی ماحول میں عوام کی خدمت کریں ۔ قابض ریاست نے حقیقی قوم پرست سیاسی قوتوں کو عوام کی صحیح ترجمانی کرنے نہ دینے سے جو مسائل پیدا کیے اس سے بڑھتی ہوئی آبادی، سماجی پسماندگی اور بے زورگاری نے بلوچ نوجوانوں کیلئے پانچ بنیادی آپشنز کو معرض وجود میں لایا ۔ ان میں پہلا آپشن۔۔ نوکری کے چکر میں ٹھوکریں کھاکر بلوچ نوجوان مجبوری سے گھروالوں کے زیورات اور فیملی کی زمینوں کو بیچ کرایک پیک اپ گاڑی خریدے تاکہ اپنی فیملی کیلئے روزگارکا وسیلہ نکالے۔ اگر گاڑی خریدنے کی سکت نہ ہو تو دوسرا آپشن رہ جاتا ہے وہ ہے کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری اہل کاروں کی دلالی کرے۔ اس سے کتنے نوجوان دلال بن سکتے ہیں؟ اب تیسرا آپشن یہ ہوا کہ یہ نوجوان بے روزگاری سے مجبور ہوکر اپنی زندگیوں کو خود تباہی کے حوالےکردییں یعنی ہیروینی کرسٹلی بن کر اپنی زندگیوں کو خود تباہ کردیں۔ چوتھا آپشن یہ ہے کہ بے روزگاری سے تنگ آکر سماجی جرائم کا پیشہ اختیار کریں، بندوق کی زور پر لوگوں کے گھروں پر ڈاکہ ڈالیں روڑوں پر بسوں پیک اپ گاڑیوں کو لوٹ لیں، اب رہ گیا پانچواں اپشن اور وہ ہوا قومی مزاحمت میں شرکت !
اب قومی وسائل پر اجنبی پنجاب کی قبضہ گیریت نے حقیقت پسند قوم پرست قوتوں کو اس نتجہ پر پنہنچا دیا ہے کہ اب مسلح مزاحمت کے بغیر اور اپنی آزادی کی بحالی کے بغیر پاکستان کے پنجابی حکمران بلوچستان اور بلوچ عوام کی شناخت تک کو مٹانے کے درپے ہیں تو مجبوراً انکی تحریک نے مسلح مزاحمت کی شکل اختیار کرلی۔ اس مزاحمتی تحریک میں نوجوانوں کو قومی نجات کی کرن نظر آئی جس سے متاثر ہوکر اس میں جوک درجوک شامل ہوئے۔ اب اس قومی مزاحمت کو روکنے کیلئے ہر اس گندھے پرکٹس عمل سے کام لیا جا رہا ہے جہاں ریاست کا کام آسان ہو، ان میں کرپٹ سیاستدان اور انکے دلال، منیشات فروش اور انکے بندوق بردارگاڑذ اور سماجی برائیوں میں ملوث قاتل چور بدمعاش غنڈے شامل ہیں! اب ان تمام کی خدمات کو لیکر وہ بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی بے سود کوشش کر رہے ہیں جہاں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سفاکانہ فوجی آپریشن اجتماعی سزا لوکل ڈیتھ اسکواڈز کا خوف و حراس پھیلاکرعوام کے دلوں سے مزاحمتی جرآت کو کُچل دینگے۔ قبضہ گیر نے ساتھ ہی کرپٹ سیاست کے ایک ایسی رواج کو پھیلا دیا تاکہ عوام سیاست کے نام ہی سے بیزار ہوجائے بلوچی پہچان اور اسکی اپنی سرزمین سے شعوری وابستگی ختم ہوجائے اور ایک ایسی سیاسی نسل ابھرے جہاں پاکستانیت کا دور دورہ ہو!
بلوچ آزادی کی مزاحمتی تحریک نے قابض ریاست کے توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ ایک اجنبی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستانی فوج نے لاکھوں کے حساب میں بلوچستان میں troops surge کرنے کے باوجود عقل سے عاری قابض ریاست نے اپنی فوجی افسران کے ذریعے کرپشن کے ہتھیار سے بھی بلوچ سماج پر حاوی ہونے کی کوشش کی ہے اسی سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بلوچوں کے دل اور دماغ کو جیت سکتے ہیں۔ لیکن بلوچ عوام یہ سب کچھ شعوری آنکھ سے دیکھ رہی ہے کون کون کس طرح استعمال ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں پاکستان کا امیج فوجی جنرلوں کے رعب و دبدبے اور زرخرید ساہوکار سیاست کاروں کی ریل پھیل سے ہےجن کےآگے پیچھے مسلح ڈیٹھ اسکواڈز کے لاؤ لشکر کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔
تربت ڈنک کا دلخراش واقع جسے ریاست کے پروردہ ڈیتھ اسکواڈزنے انجام دیا۔ معلومات کے مطابق سفاک قاتلوں کا سرغنہ سمیر سبزل آبسر بنڈانی بازار میں رہتا ہے۔ اسکا کزن کیچ میں ایک بہت مشہور چور تھا اسی سے تربیت پاکر سمیر نے بھی کیچ میں لوگوں کو تنگ کرنا شروع کردیا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مشہورمنیشات فروش شخصیات کے ساتھ انکے مراسم بڑھ گئے۔ انکے زیر سایہ اسے سرکاری اداروں میں تحفظ ملی تربت سے گوادر تک اس کا نیٹ ورک بڑھ گیا۔ معلومات یہ بھی بتا رہے ہیں کہ خفیہ اداروں نے کیچ سے گوادر تک اس خطے کی تمام سفاک قاتل ڈیتھ اسکواڈز اور عالمی منشیات فروش سرگرم کروائے ہیں ۔ منشیات کے کاروبار میں پاکستان ایف سی کو بھی یہ اھم ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ افغانستان کے ڈرگ مافیا کے مال کو بحفاظت بلوچستان کے ساحلوں تک پہنچانے میں مدد دیں جس سے نہ صرف پاکستان آرمی کو کروڑوں کی آمدنی ہوگی بلکہ پاکستان کی مرکزی بنک کو بھی مفت کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ اس منیشات فروشی کے دھندے میں بلوچستان کے کئی نام نہاد اسمبلی ممبرز بھی شامل ہیں۔۔ بلوچستان میں اس تمام منفی ماحول کو پیدا کرنے کا بنیاد مقصد یہی ہے کہ یہاں ایک مہذب سیاسی ماحول پیدا نہ ہو کیوںکہ یہاں دنیا کی سب سے بڑی اسٹراٹجک پروجکٹ سی پیک پر کام ہو رہا ہےجس کی بلوچ قوم بڑی شدت سے مخالفت کر رہی ہے۔ بلوچ عوام کو یہ فکر لاحق ہے کہ اس کی کامیابی میں بلوچ قوم کی بڑی تباہی ہے۔سی پیک جیسے منصوبے کامیاب کرانےکیلئے سرکار کو جی حضوری کرنے والے سیاست دانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک طرف دشمن اپنی تمامتر ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے تاکہ بلوچ قومی تحریک کا قلعہ قمع کرے جبکہ دوسری طرف تحریک میں آزادی کی تحریک میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جو طبقاتی وفاداری اور مظلومیت کے نام پر تحریک پر monopolyاجارہ داریت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک کے اندر وفاداری کے حوالے متواتر طبقاتی لکیریں کھینچی جا رہی ہیں۔ مگرچونکہ سیاسی بلوغت اور صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے انکا یہ خفیہ ایجنڈا اب طشت از بام ہوچکا ہے موجودہ تحریک کی بنیاد حیربیارمری نے قومی پیمانے پر رکھی ہے۔ اپنی مستقل مزاجی اور وسیع النظر صلاحیتوں سے وہ اس تحریک کو کامیاب کراکر ہی دم لینگے۔ اس کی موجودگی میں اس تحریک کا خاتمہ نہ اندرونی دراڑیں پیدا کرنے سے ممکن ہوگی اور نہ ہی کوئی اسے قومی سے detract کرکے گمراہ کن طبقاتی تحریک کے لائن پر لاکر اسکا خاتمہ کرسکتا ہے۔
اوپر کی تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں مزید سوچھنا ہوگا کہ تین نامساعد معروضی حالات، یعنی ریاست کی دہشت گردی، کرونا وائرس کا ڈر اور ایک منظم سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کے باوجود آج کی برمش کی بیداری کی تحریک spontaneous uprising کا قومی سرحدوں تک اس کے قومی پیمانے پر وسیح پھیلاؤ اس حقیقت کو ذہنوں میں رجسٹرڈ کروا ہے کہ قبضہ گیر کے ماتحت ہوتے ہوئے بھی بلوچ قوم نے اپنی قومی تشکیل کے مرحلے کو بخوبی سرانجام دیا ہے۔ بلوچ عوام نے، تونسہ شریف سے لیکر مند تک جو مظاہرے کئے ہیں، یہ ثابت کیا ہے کہ انکی ایک ہی قومی روح ہے اور وہ ہے بلوچیت۔ سیاسی چگل خوروں کے ٹوٹکے متوسط طبقے کے نعرے، قبائلیت اور علاقائییت جیسے منفی رویوں کو قصہ پارینہ ثابت کردیا ہے۔ اب اس تحریک کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، گوکہ برمش کی یہ تحریک ایک خاص مرحلے تک پہنچ کر آگے چل نہ سکے مگر اس تحریک نےتمام قوتوں کے لیے اکھٹا چلنے کی گنجائش پیدا کردی ہے۔

Exit mobile version