کراچی(ہمگام نیوز) لاپتہ بلوچ شہدا و اسیران کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1876دن ہو گئے۔اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی نوشکی کے سینیئر عہدے دارخورشید جمالی اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ افراد و شہدا کے لوحقین سے اظہار ہمدردی کی بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔انہوں نے کہا کہ 13نومبر1839سے لے کر آج تک یہ جنگ جاری ہے۔درمیان میں مختصر مدت کے لئے کم ہونے کے باوجود جاری ہے۔اس دوران بلوچ دشمن کی اذیت سہتے رہے اس طرح ہوتا ہوا آخر 1947کو بلوچ ریاست بحال ہوا اس کے بعد پھر برطانیہ کا بنایا ہوا ایک نومولود ریاست وجود میں آیا۔وہ مذہب کے نام پر بلوچ قومی کی سرزمین پر قبضہ کرگیا۔روز اول سے بلوچ اس قبضہ کے خلاف بولتے اور لڑتے آ رہے ہیں۔اس وقت سے آج تک بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جس کا جائزہ لیا جائے تو یہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں گے۔صر1971کے دوران ہزاروں کی تعداد میں اغواء کر کے لے گئے جن کے بارے میں تا حال کسی کو کوئی پتہ نہ چل سکا۔73تا 75کے خونی ادوار میں دلیپ داس، اسد مینگل،شیر علی،احمد شاہ بلوچ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو دوران سفر اٹھایا گیا ۔ اس طرح بلوچ نوجوانوں کی اغواء کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ ماما قدیر بلوچ اور سمی بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت سیاسی پارٹیوں کی کمزوریوں کی وجہ سے ان کو دنیا کے سامنے لانے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئے۔لیکن بلوچ اپنے فرزندوں کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولتے چاہے وہ کسی بھی وقت کے قصے کیوں نہیں ہوں۔مقصد کہ یہ اغواء کا معاملہ صرف آج کا نہیں ہے۔انگریز قابضین نے بھی بلوچوں کے خلف اسی طرح کے حربے آزمائے لیکن وہ بلوچوں کی مذاحمت کو ختم نہیں کر سکے۔تاریخ کا حصہ بننا خوہشات کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ کردار خود تاریخ سے جڑتے ہیں۔تاریخ میں اپنا مقام بنانے کے لئے انسان کو اپنی مقصد سے جنون کی حد تک محبت کرنا چاہیے۔آپ جس کام کے لئے تکلیف برداشت کررہے ہیں، محنت کے ساتھ اپنے عمل سے جُڑے ہوئے ہوں تو آپ کو مقصد آپ کے کردار سے حاصل ہوتا ہے۔اس سے جو تبدیلی رونما ہوتی ہے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔یہ بات حقیقت ہیکہ بلوچستان کی آزادی پوری خطے کے لئے امن کا باعث ہوگا۔اسی طرح بلوچ لیڈران بھی دنیا کے لئے سبق آموز حیثیت رکھتے ہیں۔صباء دشتیاری، اکبرخان بگٹی، بالاچ خان، یا کسی اور لیڈر کا نام لیں تو ہر کسی کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ان تاریخ ساز شخصیات کو ریاست نے اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے شہید کردیا۔وہ تو تاریخ میں امر ہو گئے لیکن ان کے خون سے ادب و سیاست میں جو تبدیلی آئی ہے شاید ریاست اسے نہیں روک سکتا۔ ایسے لوگ تاریخ میں زندہ ہوتے ہیں