ایمسٹرڈیم(ہمگام نیوزڈیسک) ہالیند سے تعلق رکھنے والی انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ اور رائیٹر بیٹی ڈیم نے افغان طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے حوالے سے انکشافات سے بھرپور اپنی کتاب ’’دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ افغان حکومت اور اس کے امریکی شراکت داروں کیلئے ان کی تحقیق کو ہضم کرنا مشکل ہے۔عرب میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی اور مصنفہ نے افغان صدر کے ترجمان ہارون چاغانصوری کی طرف سے اپنی کتاب مسترد کئے جانے پر کہاکہ میں یہ سمجھ سکتی ہوں کہ اس کتاب میں کی گئی تحقیق کے نتائج کابل اور اسکے امریکی پارٹنرز کیلئے ہضم کرنا مشکل ہے۔
کیوں کہ وہ سالہا سال تک کہتے رہے کہ ملا عمر پاکستان میں رہ کر افغان مزاحمت کو کنٹرول کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں نے ملاعمر کے حوالے سے 5 سال تک تحقیق کرکے جان لیا کہ ملا عمر بیرونی ممالک پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتے تھے۔
انہوں نے 9/11 کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اپنے قبیلے کے ساتھ رہیں گے اور پاکستان نہیں جائیں گے کیوں کہ پاکستان نے ان کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کئے تھے۔
ڈچ صحافی بیٹی ڈیم کا کہنا تھا کہ افغان لوگ بہت تعاون کرنے والے ہیں بشرطیکہ آپ یہاں ہتھیاروں کے بغیر آئیں پہلی بات یہ ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ غیر مسلح لوگوں کیلئے افغانستان میں رسائی حاصل کرنا آسان ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں گزشتہ 10 سال سے افغانستان سے واقف ہوں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ہتھیاروں اور ٹینکوں سے مسلح ہو کر انسانوں سے معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں مگر امریکہ کی یہی حکمت عملی تھی۔اس کے علاوہ زیادہ تر امریکی حکام کو سو فیصد یقین تھا کہ وہ (ملاعمر) پاکستان میں ہیں اور کافی عرصہ تک میرا بھی یہی خیال تھا۔مگر ہم سب غلط سمت میں دیکھ رہے تھے۔