ہمگام کالم : شہید بالاچ مری سے جب نواب شہباز اکبرخان شہید اوردیگر جانثار شہدائے تراتانی سے متعلق ایک صحافی دوست نے تفصیلات جاننا چاہا تو انہوں نے سانحہ تراتانی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ اچانک وقوع پزیر نہیں ہوا، اس کے لئے پاکستانی قابض فوج نے کئی دنوں ہفتوں سے منصوبہ بنا رکھا تھا۔ شہید بالاچ نے ریاستی اداروں اور اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف اور پاکستانی میڈیا کے ان دعووں کو مسترد کردیا تھا کہ نواب بگٹی کی شہادت غار دھنس جانے سے ہوئی تھی یا فوجی اہلکار نواب صاحب سے مذاکرات کے لئے جارہے تھے کہ انہوں نے خود دھماکہ کیا اور وہ شہید ہوگئے۔ شہید بالاچ مری نے اس جنگی صورتحال کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا کہ نوابزادہ براہمدغ اکثر اوقات نواب صاحب کے ساتھ ہوتے تھے، بالاچ مری کہتے تھے کہ وہ اور دیگر سرمچار نواب صاحب کو کوڈ نام ڈاڈا کہہ کر پکارا کرتے تھے تاکہ دشمن کو ان کے مابین رابطہ کو سنے جانے پر تذبزب کا شکار بنا کر آپسی روز مرہ دفاعی سرگرمیوں کو بہتر انداز سے سرانجام دی جاسکے۔ وہ اپنے وڈیو بیان میں کہتے ہیں کہ ڈاڈا بگٹی کے پیر میں سخت تکلیف ہوتی،انہیں چلنے پھرنے میں سخت دشواری کا سامنارہتا، لیکن جسمانی کمزوری کے باوجود ان کے حوصلے پہاڑ جتنے بلند تھے۔ وہ آگے چل کر کہتے ہیں کہ ہم سیکورٹی کو مد نظر رکھ کر رات کو اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے تھے اور دن بھر اپنی حفاظت اور دوستوں کی جنگی سرگرمیوں سے متعلق حفاظتی تدابیر پر سوچ و بچار کرتے رہتے۔ ہمارے منصوبوں کا محور صرف اپنی حفاظت نہیں تھی بلکہ ہمارے بلوچ عوام، خانہ بدوش اور مال دار لوگ جو اس ریاستی جارحیت کا سامنا کررہے تھے ان کے لئے ہم فکر مند تھے کیونکہ ریاست انہیں بلا امتیاز نشانہ بنارہی تھی۔ فوج نے سبی، تلی، اور ڈیرہ بگٹی کے مضافاتی علاقوں سے پورے علاقے کو گھیرے میں لیکر بڑے پیمانے پر جارحیت شروع کررکھا تھا۔ یہ لڑائی چھبیس اگست سے تین چار دن پہلے باقاعدہ شروع ہوچکی تھی اور بلوچ سرمچاروں اور ریاستی قابض افواج کے درمیان گھمسان کی جنگ چل رہی تھی، بلوچ جانباز سرمچار دشمن کا دو بدو مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں اتر چکے تھے۔ بلوچ مزاحمت کاروں کے پاس محدود پیمانے کی جنگی ساز و سامان تھے،قابض فوج کے پاس جنگی جہاز، توپ بردار ٹینک اور دور مار میزائل تھے جو وہ متواتر مقامی آباد ی پربلا روک ٹوک استعمال کررہے تھے۔ بیس اگست کے آس پاس جوں ہی جنگ چھڑ گئی تو نواب صاحب نے تمام سرمچاروں کو احکامات دینا شروع کردیئے اور سب نے اپنی ، اپنی پوزیشن سنبھالی، نواب صاحب خود جنگ کی کمان کرنے اور اپنی سرزمین کی دفاع میں سرفہرست دکھائی دیئے۔ ان کے ارادوں اور تاثرات میں کوئی کمزوری دکھائی نہیں دی کیونکہ وہ نظریاتی طور پر بلوچ گلزمین کی آزادی کے لئے قربان ہونے کا اٹل فیصلہ کرچکاتھا انہوں نے اس پیران سالی میں پنجابی قابض فوج کو للکارتے ہوئے نواب نوروز، آغا عبدالکریم، نواب مری اور دیگر ہزاروں بلوچ بہادر جانبازوں کی یادوں کو تازہ کردیاتھا۔ نواب صاحب نے اپنے قول کو بالکل لفظ بہ لفظ سچ ثابت کردیا، جس میں انہوں نے پارلیمنٹیرینز سے کہا تھا کہ بیانات کی حمایت ان کے کسی کام کا نہیں وہ کہتے تھے کاغذی شیر ہمارے کام کا نہیں ہیں، شیر ہو تو میدان میں شیر کی طرح لڑو تاکہ پتہ چلے کہ تم واقعی شیر ہو اور شہدائے تراتانی نے اپنی خون کے آخری قطرے تک شیروں کی طرح دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے بہایا اور بلوچ گلزمین کی گود میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔ شہید نواب بگٹی اس جنگ میں اکیلے نہیں تھے، بلکہ اس جنگ میں درجنوں دیگر بلوچ بہادر سپوت بھی اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ان گمنام شہدا میں، میوا بگٹی جو نواب صاحب کے ساتھ سائے کی طرح رہتے اور بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ اس کے علاوہ دستیاب معلومات کے مطابق شہدا ئے تراتانی میں بلوچ غیور فرزند قمیسہ مری بھی شامل تھے جو بہادر اور دلیری سے دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ یاد رہے شہید قمیسہ کے والد حمیدھان مری جو 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران بلوچستان میں فوج کشی کے دوران پنجابی قابض فوج کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور اس خاندان کے بہت سے دیگر نوجوان ریاستی جبر و استبداد کا شکار ہوئے لیکن ان کی بلوچ وطن سے آزادی کی چاہت کم ہونے کی بجائے وقت گزرنے کے ساتھ ، ساتھ مزید پختہ اور مضبوط تر ہوتا گیا ہے۔ شہید نواب اکبر خان کے ساتھ شہید ہونے والے دوسرے بلوچ بہادر سپوتوں کے نام اور کوائف ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں اور تراتانی معرکے میں شہدا اور غازیوں کی اصل تعداد کتنی ہے اس پر ابھی تک کسی نے کھل کر بات نہیں کی ہے۔ بلوچ قوم اپنے ان عظیم شہدا کو سر اٹھا کر سلام پیش کرتی ہے۔ چونکہ بلوچستان کے کونے کونے سے اور ہر ادوار میں بلوچ قوم نے قربانیاں دی ہیں، ایسے ہزاروں گمنام شہدا نے اپنی گلزمین کے لیئے جان دی کہ ان کو گننا بھی مشکل ہے اس بڑی تعداد میں وطن کے جانثاروں کو یاد کرنا اور ان کے قومی کاوشوں اور فرائض و قربانیوں کو قومی سطح پر یاد کرنے کے لئے فری بلوچستا ن موومنٹ کی قیادت نے تیرا نومبر کو شہدائے بلوچستان کا دن مقرر کیا ہے تاکہ اس تاثر کو پنپنے نہ دیا جائے کہ کسی نواب، میر، معتبر اور کمانڈر یا ان کے رفقا کے لئے ریفرنس کا انعقاد تو ہوتا ہے لیکن عام بلوچ سرمچاروں اور گمنامی میں جام شہادت نوش کرنے والوں کا دن نہیں منایا جاتا ہے۔ مثبت اور اچھی بات یہ ہے کہ دیگر آزادی پسند پارٹیاں بھی 13 نومبر کو بلوچ شہدا کے دن کے طور پر مناتے ہیں جو قومی یکجہتی کا مظہر ہے۔ نواب اکبربگٹی اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے بلوچ بہادر بیٹوں کو یاد کرنے کا مقصد ان کے قومی خدمات کا اعتراف اور ان کی سرزمین کے لئے گراں قدر قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے نسل کو غلامی سے بیدار کرکے تیار رہنے کا درس دینا بھی مقصود ہے۔ نواب بگٹی نے پیران سالی میں تمام تر ریاستی مراعات کو ٹھکرا کر بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں کو اپنا مسکن کسی شوق میں نہیں بنایا بلکہ وہ یہ شعوری فیصلہ کرچکا تھا کہ ساری زندگی پاکستانی پارلیمنٹ میں گزاری لیکن پھر بھی پنجابی کو ان کے سیاسی جدوجہد راس نہیں آئی۔ اگر وہ چاہتے تو کروڑوں کی مراعات لیکر قابض کے ساتھ لین دین کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے 80 سالہ تجربے کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرلیا کہ پاکستان کے ساتھ رہ کر وہ اچھا غلام تو بن سکتے ہیں لیکن ایک اچھا اور سچا بلوچ نہیں۔ آپ کے اس فیصلے نے بلوچ تحریک میں نئی روح پھونک دی، آپ ایک دم بلوچ نوجوانوں میں مزاحمت کی واضع علامت بن گئے، نوجوان، بوڑھے ہر ایک آپ کے اس انقلابی اقدام سے نہ صرف خوش تھے بلکہ آپ کے اور بلوچ سرمچاروں کی اس مزاحمتی عمل میں عملی طور پر بھی شریک ہونے کے لئے بے تاب تھے۔ آپ نے جنگ سے قبل جنگ کی تیاری کی، اور بابا مری، سنگت حیربیار اور شہید بالاچ مری کے ساتھ مل کر مری اور بگٹی برادری کے مابین 30 سالہ خانہ جنگی اور آپسی کشت و خون کا تاریخی صلح کرایا۔ ریاست نے مری ، بگٹی کی قبائلی طاقت کو منتشر کرنے کے لیئے ہمیں تین دہائیوں تک ایک دوسرے سے نہ صرف دور رکھا بلکہ سازشوں اور شاطرانہ چالوں سے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن بھی کرایا، اس اثنا میں ہمارے سینکڑوں بہادر نوجوان ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے۔ بابا مری اور ڈاڈا بگٹی کے کاوشوں سے مری بگٹی کے مابین جنگ کے خاتمے کے لیئے نوابزادہ براہمدغ بگٹی، سنگت حیربیار اور شہید بالاچ مری کو اختیار دیا گیاکہ وہ صلح کرانے کے لئے علاقے کے تمام میر و معتبر اور قبائلی عمائدین کو اکھٹا کریں۔ دونوں نوجوان رہنماوں نے مری بگٹی کی سرحدی علاقے میں تمام فریقین کو اکھٹا کیا اورکئی مراحل پر مشتمل اس صلح نامہ پر عمل درآمد ہوگیا اور دونوں قبائل جو ایک دوسرے کے علاقے میں آ جا نہیں پاتے اب ایک دوسرے کے ساتھ مورچے میں دشمن قابض فوج کیخلاف لڑنے کا اصولہ فیصلہ کرچکے تھے۔ ایک طرف، حیربیار، براہمدغ کے مابین تاریخی صلح کے دستاویز پر دستخط ہورہے تھے تو دوسری طرف جی ایچ کیو اور پنڈی میں خوف اور زلزلے کی سی ماحول طاری تھی کیونکہ اب مری و بگٹی کا مضبوط قبائل بلوچ تحریک کے لئے طاقت مہیا کرنے جارہی تھی۔ دشمن کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ اب بلوچ بیدار ہوگئے ہیں، اب انہیں آپس میں لڑانے کے تمام تر چالیں بے سود ہوگئے۔ مری اور بگٹی برادری کا آپس میں ایک ہونا دشمن کے لئے کاری ضرب کے برابر تھا یہی وجہ ہے کہ جب تراتانی کا سانحہ ہوتا ہے تو یہاں مری اور بگٹی اور دیگر بلوچ سرمچار ایک ہی مورچے لڑتے ہوئے وطن پر قربان ہوکر قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہیں۔ بلوچ قوم دوست رہنما سنگت حیربیار مری نے2009میں لندن کے انسانی حقوق کے علم بردار برطانوی باشندے پیٹر تھیچل اور ایک ہسپانوی صحافی کارلوس زورتوزوا کو ان کی بلوچستان سے متعلق رپورٹنگ اور اخلاقی حمایت کی بنیاد پر انہیں نوا ب اکبر بگٹی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ بلوچ نوجوان نواب بگٹی اور ان کے دیگر شہدا ساتھیوں کی قومی آزادی کے لئے بے بہا قربانیوں کو رائیگان نہ جانے دینے کا عہد کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب بلوچ سیاسی اور مزاحمتی قیادت یک نقاطی ایجنڈا،(پاکستان و ایرانی غلامی سے نجات) کے لئے اکھٹے ہونگے اور اپنی گروہی، ذاتی اور پارٹی سیاست کے خول سے نکل کر بلوچ و بلوچستان کی مستقبل کے لئے اپنی توانیاں صرف کریں گے۔