همگام اداریہ

امریکی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹ پارٹی کے جوبائیڈن کے درمیان اعصاب شکن مقابلے کے بعد امریکی انتخابات کے سربراہ نے جو بائیڈن کوامریکہ کی 46 ویں صدر قرار دیا ہے۔ جوبائیڈن کا صدر منتخب ہونے کے بعد کینیڈا پہلا جبکہ برطانیہ دوسرا عالمی ملک تھا جس نے سرکاری طور پر ڈیموکریٹ کے جوبائیڈن کو کامیابی و مبارک بادی کے پیغامات ارسال کئے۔ اس کے علاوہ یورپ کے بیشتر ممالک، برصغیر میں ہندوستان نے بھی جوبائیڈن کی جیت کو سراہا اور انہیں خیرسگالی کے پیغامات بھیجے۔ پاکستان کی کٹھ پتلی وزیر اعظم عمران خان نے بھی ڈیموکریٹ کے امیدوار کی جیت پر انہیں مبارک بادی کے پیغامات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نئے امریکی صدر کے ساتھ خطے میں امن و امان اور افغانستان میں امن لانے کے لئے ملکر کام کرنے کا اعادہ کرتا ہے۔ پاکستان وہ لالچی اور دہشت گرد ملک ہے جو بھول گئی ہے کہ جس بائیڈن کو اپنی چرب زبانی میں رام کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں در اصل وہ سابق امریکی صدر اوباما انتظامیہ کے وقت نائب صدر تھے جس کی موجودگی میں امریکی فضائیہ کے دو ہلی کاپٹروں نے ایبٹ آباد میں گھس کر آئی ایس آئی کے اہم کارندے اور مہرے اسامہ بن لادن کو مار ڈالا تھا۔

امریکہ دور حاضر کا سپر پاور ملک ہے، اور اس وقت لگ بھگ پوری دنیا میں ہر لحاظ سے امریکہ کا سکہ چلتا ہے، امریکہ کی مرضی و منشا کے بغیر بہت سے طاقتور ممالک بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھایا کرتے ہیں، وائٹ ہاوس اور پینٹاگون کی ریڈار سے شائد ہی کوئی ملک بچ پایا ہے، اس وقت پوری دنیا کی نظریں امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں۔ کون صدر کا تاج اپنے سر پر سجائے گا اس بات کا فیصلہ امریکی عوام نے کر لیا ہے لیکن ریپبلکن امیدار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ہار ماننے پر اب تک تیار نہیں، انہوں نے انتخابات میں بڑے پیمانے کی دھاندلی کہہ کر نتائج کو ماننے سے انکار کردیا ہے، تین نومبر کو انتخابات کے نتائج میں منفی رجحان دیکھ کر انہوں نے امریکہ سپریم کورٹ سے گنتی روکنے کا مطالبہ کیا تھا، ان کے پارٹی کا کہنا ہے کہ ان کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، ٹرمپ کی دعووں کے برعکس جو بائیڈن کو فاتح قرا ر دیا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے اور ایک لمبی قانونی جنگ کے لئے آستینیں چھڑا رکھی ہیں، اس قانونی لڑائی کو شروع کرنے کے لئے ان کی پارٹی نے ووٹروں سے ڈونیشن بھی جمع کرنا شروع کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ جو بائیڈن کی جیت کو ہار میں بدلنے کیلئے کامیابی حاصل کرپائیں گے یا پھر عدالتی جنگ میں اربوں ڈالر بہا کر خالی ہاتھ لوٹ جائیں گے؟

ادھر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ امریکی سپریم کورٹ عدالتی فیصلے کی رو سے ڈونلڈ ٹرمپ قانونی باریکیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو امریکی صدر قرار دے بھی سکتا ہے۔ ہم ان قانونی داو پیچ میں جائے بغیر اصل مدئے پر آتے ہیں۔

اگر ٹرمپ جیتتا ہے تو بلوچستان کی تحریک آزادی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ اور اگر سابق امریکی نائب صدر و موجودہ جیت کے دعویدار جو بائیڈن جیت رہا ہے تو بلوچ قومی تحریک آزادی پر کیا مثبت و منفی تبدیلیاں رونما ہونے کے امکانات کیا ہونگے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی دور صدارت میں اگر ان کا خطے میں مجموعی فیصلوں اور اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ایران کو لیکرٹرمپ انتظامیہ کا موقف انتہائی سخت رہا ہے۔ انہوں نے صدر منتخب ہوتے ہی اوبامہ کے دور میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو منسوخ کرتے ہوئے تہران پر کھڑی پابندیاں دوبارہ عائد کئے تھے۔ یا درہے2015 اس معاہدے میں پانچ بڑی عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن ممالک جن میں چین، فرانس، امریکہ، برطانیہ اور روس شامل تھے۔

بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بلوچ رہنما فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری وہ واحد عالمی رہنما تھے جنہوں نے عالمی طاقتوں کے منہ پر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے اس بلوچستان کے لئے بالخصوص اور عالمی امن کے لئے بالعموم نقصاندہ قرار دیتے ہوئے ایران کے ساتھ ڈیل کو شیطان کے ساتھ ڈیل قرار دیا تھا، آپ نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے اس معاہدے کو شیطان کے ساتھ ڈیل سے تشبہہ دیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ سے شروعاتی دنوں میں دنیا بھر کی امیدیں وابسطہ تھیں کہ وہ شائد سنجیدہ قسم کے فیصلے لیں گے۔ خطے کے محکوم اقوام خاص طور پر بلوچستان، کردستان کے عوام کو ٹرمپ کے فیصلوں سے خاصی مایوسی بھی ہوئی، آزاد کردستان کے لئے برسرپیکار کرد تحریک نے شام، عراق میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن پھر دیکھا گیا کہ صدر ٹرمپ نے کردوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہوئے انہیں ترکی، اورایران نواز قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس سے کردوں نے سخت ناراضگی کا مظاہرہ کیا۔ ادھر طالبان کو لیکر افغانستان بیس سالہ جنگ میں افغان حکومت کو بھی امریکہ کے جنوبی ایشیا کے سربراہ زلمی خلیل زاد کو لیکربیک ڈور شکایات سننے کو ملے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے پر رضامندی اختیار کرتے ہوئے دراصل پاکستان کی مدد کی اور افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگی جرائم میں ملوث آئی ایس آئی اور پاکستانی مقتدرہ کو کھلی چھوٹ دے دی۔ واشنگٹن نے اس پورے معاہدے میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ افغانستان کو خون میں نہلانے کی جنگی کاروائیوں کے مراکز، ان طالبان جنگجووں کو پاکستان کی فوج کو کیسے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے؟ بلوچستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ نے ایک اور منفی اقدام یہ اٹھایا تھا جس میں بی ایل اے کے ایک منحرف دھڑے کی چند ایک کاروائیوں کو جواز بنا کے ان کا حوالہ دے کر اس بلوچ مسلح تنظیم کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جس کی بلوچ قوم میں شدید مذمت و مخالفت کی گئی تھی۔

جوبائیڈن کو مبصرین چائنا و پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے صدر کے روپ میں دیکھ رہے ہیں لیکن بلوچ حلقوں میں تجسس سے اس سوال کو پوچھا جارہا ہے کہ اگر ڈیموکریٹ کے امیدوار جوبائیڈن وائٹ ہاوس میں پہنچ جاتے ہیں تو بلوچ قومی تحریک آزادی کے لئے ان کے انتظامیہ کی پالیسیاں کس طرح سے ہونگے؟ اس سوال کا جواب فی الوقت میسر نہیں ہے لیکن ہم وقت پر انحصار کرنے کی بجائے خطے کے مابین جنگی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی ہمیشہ اہمیت کا حامل رہیگا۔

اہم سوال یہ ہے، بلوچوں کو دنیا کی طرف دیکھنے کی بجائے خطے کے ممالک بلوچ تحریک کے لئے کیا سوچ رہا ہے، اور ان کا بین الاقوامی برادری سے کیا توقعات ہیں، سب سے پہلے بلوچوں کو اپنے گریبان میں، اپنے چاردیواری میں، اپنے فیصلوں پر، اپنے پالیسیوں کو سامنے رکھ کر اپنی بھکری ہوئی قومی طاقت کو یکجا کرنے پر دھیان دینا چاہیے، جب بلوچ دوسرے اقوام کے مفادات و اشاروں کی بجائے صرف اور صرف اپنے قومی مفادات کی خاطر پالیسی بنا کر متحد ہونگے، اور ایک قومی اجتماعی مفادات کو ترجیح دے کر دنیا کے ساتھ اپنے مدعے کو پیش کریں گے تب دنیا سنجیدگی سے ہماری کاز اور تحریک آزادی پر سوچ بچا کرپائےگا۔

ہم نے دیکھا ہے 2012 کو ریپبلکن پارٹی کے چند کانگریس کے ارکان نے رکن کانگریس ڈانا روہرابیکر، لوئی گھومرٹ، سٹیو کنگ کی سربراہی میں بلوچستان کے حوالے سے ایک بحث و مباحثے کا انعقاد کیا۔گیا تھا اور اوباما انتظامیہ سے بلوچستان کے مسئلے پر آواز اٹھانے کی بات کی گئی تھی لیکن افسوس کے ساتھ ریپبلکن پارٹی جب اقتدار میں آیا تو انہوں نے بلوچستان مسئلے کو سرد خانے میں ڈال کر اپنے ہی بیانات، اور موقف سے روگردانی کی۔ بلوچ حلقوں میں ایسے بھی شکوک و شبہات موجود ہیں کہ اگر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں بلوچستان کو نظر انداز کیا تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد بلوچستان کو ترجیح دینگے؟

یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اگر ہم پارٹی و گروہی مفادات کو پہلی اور قومی و اجتماعی مفادات کو ثانوی سمجھیں گے تو عالمی طاقتیں بھی ہمیں اسی نظر سے دیکھ کر اور ہم سے پیش آئینگے۔ جیسے کہ پاکستان کو لیکر خطے کے ممالک ان کی پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے صرف فوجی سربراہوں سے رشتے استوار کرنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں کیونکہ فوج کو ملکی مفادات سے بڑھ کر ڈالر بٹورنے کی فکر رہتی ہے لیکن وہ ہر عالمی طاقت کے سامنے فوجی پتلون کی بیلٹ ڈھیلا کرکے لیٹ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت، عوامی رائے اور پارلیمنٹ مزاق بن کر رہ گئی ہے، ہر امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان کی فوجی سربراہ کو فون کرکے انہیں وفاداری برقرار رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ افغانستان میں چڑھائی کررہا تھا تو جارچ ڈبلیو بش نے پاکستان کے پارلیمنٹ سے رابطہ کرنے کی بجائے، سب سے پہلے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو دھمکی آمیز فون کالز کیا تھا، جس میں ان سے کہا گیا تھا یا تو وہ امریکہ و نیٹو کی حمایت کرے یا پھر پتھر کے زمانے میں چلے جانے کے لئے تیار رہے۔

بلوچ قیادت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے ہٹ کر پیش کرے، اور ایک ایسی اجتماعی و قومی پالیسی متعارف کرائے کہ جس میں عالمی طاقتیں بھی مجبور ہوں کہ وہ ایک شخص، ایک پارٹی یا ایک مخصوص طبقے کو بطور پراکسی استعمال کرنے کی بجائے بلوچستان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے جان کر تسلیم کرے۔ اگر بلوچوں نے اپنی منشتر طاقت کو سمیٹ کر دنیا سے بات کرنے میں پہل کی تو کامیابی ہماری قدمیں چھومیں گے اگر ہم نے معروضی اختلافات کو جواز بناکر دوسروں کے اشاروں و ہدایات پر ٹولیوں میں بٹ کر اپنی ذاتی مفادات کی تحفظ پر اکتفا کی تو بلوچستان کی سلامتی اجتماعی طور پر غیرمحفوظ رہیگا۔

تمام باتوں کا لب و لباب یہ ہے کہ عالمی برادری اپنے مفادات کی پیروی کرتے ہیں، صدور کے بدلنے سے یا پارٹیوں کے ہار جیت سے ملکی مفادات نہیں بدلتے، امریکہ کے مفادات بلوچستان کی آزادی سے جڑے ہوئے، امریکہ کا صدر اپنے ملکی مفادات کو نظر انداز کرنے کی کبھی بھی غطلی نہیں کریگا، چین کی برصغیر میں بڑھتی قدموں، پاکستان کا طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرنے، پاکستان کا کشمیر میں جہاد کارڈ کو نئے سرے سے شروع کرنے کی پالیسی، ایران کا عراق، لبنان میں پراکسیوں کا استعمال، اسرائیل کا یو اے ای، بحرین، سعودی عرب کے ساتھ غیرمعمولی رغبت اور نئے تاریخی امن معاہدات اس بات کی غماز ہیں کہ امریکہ، افغانستان، ہندوستان، اسرائیل، اور خلیجی ممالک کو بلوچستان کی یعقینا ضرورت پڑیگی۔ اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس بیانیہ کو بلوچ قو می قیادت کس شدت اور شفافیت سے عالمی برادری کے ٹیبل پر رکھے گی؟ کہ آیا انہیں بلوچستان کی ضرورت پڑیگی اور عالمی برادری کو چین، پاکستان، ترکی، ایران کی ننگی جارحیت اور معاشی اجارہ داری کو لگام دینے کیلئے بلوچستان بحیثیت ملک کس قسم کی تعاون و مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ عالمی طاقتوں کو ایک اجتماعی قومی طاقت کو دیکھنا ہوتا ہے، انہیں ایک ملک کے ساتھ چلنے کے لئے ایک ایسے پلیٹ فارم، اجتماعی پارٹی اور قابل لیڈرشپ کی تلاش ہوگی جو ذاتی مفادات اور پیسے کی ریل پیل سے سودہ بازی کرنے کی سوچ سے کوسوں دور سوچے، ان کی پالیسی کا محور صرف اور صرف بلوچ قومی مفادات و بلوچستان ہو۔